سنن ابنِ ماجہ - - حدیث نمبر 14863
حدیث نمبر: 4132
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سُهَيْلِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَا أُحِبُّ أَنَّ أُحُدًا عِنْدِي ذَهَبًا،‏‏‏‏ فَتَأْتِي عَلَيَّ ثَالِثَةٌ،‏‏‏‏ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ،‏‏‏‏ إِلَّا شَيْءٌ أَرْصُدُهُ فِي قَضَاءِ دَيْنٍ.
جو بہت مالدار ہیں انکا بیان
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسرا دن آئے تو میرے پاس اس میں سے کچھ باقی رہے، سوائے اس کے جو میں قرض ادا کرنے کے لیے رکھ چھوڑوں ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ١٤٣٤٣، ومصباح الزجاجة: ١٤٦٦)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الاستقراض ٣ (٢٣٨٩)، صحیح مسلم/الزکاة ٨ (٩٩١)، مسند احمد (٢/٤١٩، ٤٥٤، ٥٠٦) (حسن صحیح )
وضاحت: ١ ؎: باقی سب فقراء اور مساکین میں تقسیم کر دوں، مال کا جوڑ رکھنا آپ کو نہایت ناپسند تھا چناچہ دوسری روایت میں ہے کہ ایک دن آپ عصر پڑھتے ہی لوگوں کی گردنوں پر سے پھاندتے ہوئے اپنی کسی بیوی کے پاس تشریف لے گئے، جب آپ سے اس کا سبب پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: کچھ مال میرے پاس بھول کر رہ گیا تھا، وہ یاد آیا تو میں نے اس کے تقسیم کردینے کے لیے اس قدر جلدی کی، نبی اکرم کی نبوت پر سخاوت بھی عمدہ دلیل ہے کیونکہ غیر نبی میں ایسے سارے عمدہ اخلاق ہرگز جمع نہیں ہوسکتے۔
Top