سنن ابنِ ماجہ - زہد کا بیان - حدیث نمبر 4266
حدیث نمبر: 4266
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي صَالِحٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَيْسَ شَيْءٌ مِنَ الْإِنْسَانِ إِلَّا يَبْلَى،‏‏‏‏ إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا،‏‏‏‏ وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ،‏‏‏‏ وَمِنْهُ يُرَكَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
قبر کا بیان اور مردے کے گل جانے کا بیان۔
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انسان کے جسم کی ہر چیز سڑ گل جاتی ہے، سوائے ایک ہڈی کے اور وہ ریڑھ کی ہڈی ہے، اور اسی سے قیامت کے دن انسان کی پیدائش ہوگی ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ١٢٥٥٢)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر الزمر ٤ (٤٨١٤)، تفسیر النبأ ١ (٤٩٣٥)، صحیح مسلم/الفتن ٢٨ (٢٩٥٥)، سنن ابی داود/السنة ٢٤ (٤٧٤٣)، سنن النسائی/الجنائز ١١٧ (٢٠٧٩)، موطا امام مالک/الجنائز ١٦ (٤٨)، مسند احمد (٢/٣١٥، ٣٢٢، ٤٢٨) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: ليس من الإنسان شئ إلا يبلى إلا عظما واحدا انسان کی ہر چیز ایک ہڈی کے علاوہ بوسیدہ ہوجائے گی اور ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں: إن في الإنسان عظما لا تأكله الأرض أبدا فيه يركب يوم القيامة، قالوا: أي عظم هو قال: عظم الذنب انسان میں ایک ایسی ہڈی ہے جسے زمین کبھی بھی نہیں کھائے گی، قیامت کے دن اسی میں دوبارہ اس کی تخلیق ہوگی، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول وہ کونسی ہڈی ہے؟ تو آپ نے کہا: وہ دم کی ہڈی ہے مستدرک علی الصحیحین اور مسند ابی یعلی میں ابوسعید خدری ؓ کی حدیث میں ہے: قيل: يارسول الله! ما عجب الذنب؟ قال: مثل حبة خردل کہا گیا: اللہ کے رسول! دم کی ہڈی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: رائی کے دانے کے برابر۔ عجب: ع کے فتحہ اور ج کے سکون کے ساتھ اور اس کو عجم بھی کہتے ہیں، ریڑھ کی ہڈی کی جڑ میں یہ ایک باریک ہڈی ہوتی ہے، یہ دم کی ہڈی کا سرا ہے، یہ چاروں طرف سے ریڑھ کی باریک والی ہڈی کا سرا ہے، ابن ابی الدنیا، ابوداود اور حاکم کے یہاں ابوسعید خدری ؓ کی مرفوع حدیث میں ہے کہ یہ رائی کے دانے کے مثل ہے، علامہ ابن الجوزی کہتے ہیں کہ ابن عقیل نے کہا: اللہ رب العزت کا اس میں کوئی راز ہے، جس کا علم صرف اسی کو ہے، اس لیے کہ جو ذات عدم سے وجود بخشے وہ کسی ایسی چیز کی محتاج نہیں ہے جس کو وہ نئی خلقت کی بنیاد بنائے، اس بات کا احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو فرشتوں کے لیے نشانی بنایا ہے کہ وہ ہر انسان کو اس کے جوہر کے ساتھ زندہ کرے، اور فرشتوں کو اس کا علم صرف اسی طریقے سے ہوگا کہ ہر شخص کی ہڈی باقی اور موجود ہو، تاکہ وہ اس بات کو جانے کہ روحوں کو ان کے اعیان میں ان اجزاء کے ذریعے سے لوٹایا جائے، اور حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ ويبلى كل شئ من الإنسان انسان کی ہرچیز بوسیدہ ہوجائے گی تو اس میں احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد اس کا فنا ہوجانا ہے یعنی اس کے اجزاء کلی طور پر ختم ہوجائیں گے اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد اس کا پگھلنا اور تحلیل ہونا ہے، تو معہود صورت ختم ہوجائے گی اور وہ مٹی کی شکل میں ہوجائے گی، پھر اس کی دوبارہ ترکیب میں اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے، بعض شراح حدیث کے خیال میں اس سے مراد اس کے بقا کا طویل ہونا ہے، نہ یہ کہ اصل میں وہ ہڈی فنا نہیں ہوگی، اس میں حکمت یہ ہے کہ یہ ہڈی انسان کی تخلیق کی بنیاد ہے، جو سب سے زیادہ سخت ہے، جیسے دیوار کی بنیاد اور جب زیادہ سخت ہوگی تو اس کو زیادہ بقائے دوام حاصل ہوگا، اور یہ قابل رد ہے اس لیے کہ یہ ظاہر کے خلاف ہے، اور اس پر کوئی دلیل نہیں ہے، اور علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث عام ہے، اس سے مراد خصوصیت سے انبیاء ہیں، اس لیے کہ زمین ان کے جسم کو نہ کھائے گی، ابن عبدالبر نے ان کے ساتھ شہداء کو رکھا، اور قرطبی نے ثواب کے خواہاں موذن کو، قاضی عیاض کہتے ہیں کہ حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ ہر آدمی کو مٹی کھالے گی اور بہت سے اجسام جیسے انبیاء ہیں کو مٹی نہیں کھائے گی۔ حدیث میں إلا عجب ذنبه ہے یعنی انسان کے جسم میں اس کے دم کی ہڈی ہی بچے گی جمہور اس کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ دم کی ہڈی نہ بوسیدہ ہوگی، اور نہ اس سے مٹی کھائے گی، مزنی نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ إلا یہاں واو عطف کے معنی میں ہے، یعنی دم کی ہڈی بھی پرانی ہوجائے گی، اور اس معنی کو فراء اور اخفش نے ثابت کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ واو إلا کے معنی میں آتا ہے، مزنی کی اس شاذ اور منفرد رائے کی تردید حدیث میں وارد وہ صراحت ہے جو ہمام کی روایت میں ہے کہ زمین اس کو کبھی بھی نہ کھائے گی، اور اعرج کی روایت میں ہے: منہ خلق اس کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی میں سب سے پہلے اسی کی پیدائش ہوئی، اور اس کی معارض سلمان ؓ کی حدیث: إن أول ما خلق من آدم رأسه نہیں ہے اس لیے کہ ان دونوں میں توفیق و تطبیق اس طرح سے ہوگی کہ یہ آدم (علیہ السلام) کے حق میں ہے، اور دم کی ہڈی کی تخلیق اولاد آدم میں پہلے ہے، یا سلمان ؓ کے قول کا مقصد یہ ہو کہ آدم میں روح پھونکی گئی نہ کہ ان کے جسم کی تخلیق ہوئی۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباری ٨ /٥٥٢-٥٥٣، حدیث نمبر ٤٨١٤ )
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Messenger of Allah ﷺ said: "There is no part of man that will not disintegrate, apart from a single bone at the base of the coccyx, from which he will be recreated on the Day of Resurrection." (Sahih)
Top