مسند امام احمد - - حدیث نمبر 77
حدیث نمبر: 77
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا سِنَانٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ وَهْبِ بْنِ خَالِدٍ الْحِمْصِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنْ هَذَا الْقَدَرِ خَشِيتُ أَنْ يُفْسِدَ عَلَيَّ دِينِي وَأَمْرِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَبَا الْمُنْذِرِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّهُ قَدْ وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنْ هَذَا الْقَدَرِ فَخَشِيتُ عَلَى دِينِي وَأَمْرِي، ‏‏‏‏‏‏فَحَدِّثْنِي مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهْلَ أَرْضِهِ، ‏‏‏‏‏‏لَعَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ رَحِمَهُمْ لَكَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ كَانَ لَكَ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ ذَهَبًا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ تُنْفِقُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا قُبِلَ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّكَ إِنْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا دَخَلْتَ النَّارَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا عَلَيْكَ أَنْ تَأْتِيَ أَخِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَتَسْأَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ فَسَأَلْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ مِثْلَ مَا قَالَ أُبَيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ لِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَا عَلَيْكَ أَنْ تَأْتِيَ حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ حُذَيْفَةَ فَسَأَلْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَال:‏‏‏‏ ائْتِ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَاسْأَلْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَسَأَلْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهْلَ أَرْضِهِ، ‏‏‏‏‏‏لَعَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ رَحِمَهُمْ لَكَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ كَانَ لَكَ مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ ذَهَبًا تُنْفِقُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا قَبِلَهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ كُلِّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّكَ إِنْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا دَخَلْتَ النَّارَ.
تقدیر کے بیان میں۔
عبداللہ بن فیروز دیلمی کہتے ہیں کہ میرے دل میں اس تقدیر کے سلسلے میں کچھ شبہات پیدا ہوئے، اور مجھے ڈر لاحق ہوا کہ کہیں یہ شبہات میرے دین اور میرے معاملے کو خراب نہ کردیں، چناچہ میں ابی بن کعب ؓ کے پاس آیا، اور عرض کیا: ابوالمنذر! میرے دل میں اس تقدیر کے سلسلے میں کچھ شبہات وارد ہوئے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرا دین اور میرا معاملہ خراب نہ ہوجائے، لہٰذا آپ اس سلسلہ میں مجھ سے کچھ بیان کریں تاکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے کچھ فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا: اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان و زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو انہیں عذاب دے سکتا ہے، اور وہ ظالم نہیں ہوگا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے حق میں ان کے اعمال سے زیادہ بہتر ہے، اور اگر تمہارے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو (یا کہا: احد پہاڑ کے برابر مال ہو) اور تم اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دو، تو یہ اس وقت تک قبول نہیں ہوگا جب تک کہ تم تقدیر پہ ایمان نہ لاؤ، تم یہ یقین رکھو کہ جو (خیر و شر) تمہیں پہنچا وہ تم سے چوکنے والا نہ تھا، اور جو تمہیں نہیں پہنچا وہ تمہیں پہنچنے والا نہیں تھا ١ ؎، اور اگر تم اس اعتقاد کے علاوہ پر مرے تو جہنم میں داخل ہو گے، اور کوئی حرج نہیں کہ تم میرے بھائی عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو، عبداللہ بن فیروز دیلمی کہتے ہیں: میں عبداللہ ؓ کے پاس آیا، اور ان سے پوچھا، تو انہوں نے بھی وہی بتایا جو ابی ؓ نے بتایا تھا، اور مجھ سے کہا: کوئی مضائقہ نہیں کہ تم حذیفہ ؓ کے پاس جاؤ۔ چناچہ میں حذیفہ ؓ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بھی وہی بتایا جو ان دونوں (ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود ؓ) نے بتایا تھا، اور انہوں نے کہا: تم زید بن ثابت ؓ کے پاس جاؤ اور ان سے بھی پوچھ لو۔ چناچہ میں زید بن ثابت ؓ کے پاس آیا، اور ان سے بھی پوچھا، تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: اگر اللہ تعالیٰ تمام آسمان و زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو انہیں عذاب دے سکتا ہے، اور وہ ظالم نہیں ہوگا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے حق میں ان کے اعمال سے بہتر ہے، اور اگر تمہارے پاس احد کے برابر سونا یا احد پہاڑ کے برابر سونا ہو، اور تم اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو وہ اس وقت تک تمہاری جانب سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہ ہوگا جب تک کہ تم پوری تقدیر پہ کلی طور پر ایمان نہ لاؤ، اور تم یہ یقین رکھو کہ جو (خیر و شر) تمہیں پہنچا ہے تم سے چوکنے والا نہ تھا، اور جو تم سے چوک گیا وہ تمہیں پہنچنے والا نہیں تھا، اور اگر تم اس عقیدہ کے علاوہ پر مرے تو جہنم میں داخل ہو گے ٢ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/السنة ١٧ (٤٦٩٩)، (تحفة الأشراف: ٥٢، ٣٧٢٦، ٩٣٤٨)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٥/١٨٢، ١٨٥، ١٨٩) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اس حدیث میں ایمان کے مزہ اور اس کی حلاوت و شیرینی کا ذکر ہے جو محسوس اشیاء کے مزہ کی طرح نہیں ہے، دنیاوی کھانے پینے کا ایک مزہ ہوتا ہے، دوسری چیز کھانے کے بعد پہلی چیز کا مزہ جاتا رہتا ہے، لیکن ایمان کی حلاوت تا دیر باقی رہتی ہے، حتی کہ آدمی کبھی خلوص دل، حضور قلب اور خشوع و خضوع کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو اس کی حلاوت اسے مدتوں محسوس ہوتی ہے، لیکن اس ایمانی حلاوت اور مزہ کا ادراک صرف اسی کو ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس نعمت سے بہرہ ور کیا ہو۔ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مقدر کر رکھا ہے، تقدیر کو اصابت سے تعبیر کیا، اس لئے کہ تقدیر کا لکھا ہو کر رہے گا، تو جو کچھ تقدیر تھی اللہ تعالیٰ نے اسے بندہ کے حق میں لکھ دی ہے وہ اس کو مل کر رہے گی، مقدر کو ٹالنے کے اسباب اختیار کرنے کے بعد بھی وہ مل کر رہے گا، انسان سے وہ خطا نہیں کرے گا۔ ایک معنی یہ بھی ہے کہ تم کو جو کچھ بھی پہنچ گیا ہے اس کے بارے میں یہ نہ سوچو کہ وہ تم سے خطا کرنے والی چیز ہے، تو یہ نہ کہو کہ اگر میں نے ایسے ایسے کیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا، اس لئے کہ اس وقت تم جس حالت سے دور چار ہوئے اس کا ٹلنا ناممکن ہے، تو تمہارا ہر اندازہ اور ہر تدبیر اس تقدیر کے وقوع پذیر ہونے میں غیر موثر ہے، حدیث کی شرح دونوں معنوں میں صحیح ہے، پس اللہ تعالیٰ نے بندہ کے حق میں جو کچھ مقدر کر رکھا ہے وہ اس کو مل کر رہے گا، اس کا خطا کرجانا ناممکن ہے، اس بات پر ایمان کے نتیجہ میں مومن ایمان کا مزہ چکھے گا، اس لئے کہ اس ایمان کی موجودگی میں آدمی کو اس بات کا علم اور اس پر اطمینان ہوگا کہ مقدر کی بات لابدی اور ضروری طور پر واقع ہوگی، اس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک آدمی اپنے بچوں کو لے کر کسی تفریح گاہ میں سیر و تفریح کے لئے جاتا ہے، اور اس کا بچہ وہاں گہرے پانی میں ڈوب کر مرجاتا ہے، تو یہ کہنا صحیح نہیں کہ اگر وہ سیر کے لئے نہ نکلا ہوتا تو وہ بچہ نہ مرتا، اس لئے کہ جو کچھ ہوا یہ اللہ کی طرف سے مقدر تھا، اور تقدیر کے مطابق لازمی طور پر ہوا جس کو روکا نہیں جاسکتا تھا، تو جو کچھ ہونے والی چیز تھی اس نے خطا نہیں کی، ایسی صورت میں انسان کو اطمینان قلب حاصل ہوجاتا ہے اور وہ اس صورت حال پر اللہ کے فیصلہ پر صبر کرتا ہے بلکہ اس پر راضی ہوتا ہے، اور اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا اس سے فرار کی کوئی صورت نہیں تھی، اور دل میں ہر طرح کے اٹھتے خیالات اور اندازے سب شیطانی وساوس کے قبیل سے ہیں، پس آدمی کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو ایسا اور ایسا ہوتا، کیونکہ لو شیطان کی دخل اندازی کا راستہ کھول دیتا ہے، اس معنی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے: ما أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسکم إلا في کتاب من قبل أن نبرأها إن ذلک على الله يسير (٢٢) لكيلا تأسوا على ما فاتکم ولا تفرحوا بما آتاکم والله لا يحب کل مختال فخور یعنی: نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے، نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے، یہ (کام) اللہ تعالیٰ پر (بالکل) آسان ہے، تاکہ تم اپنے سے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہوجایا کرو، اور نہ عطا کردہ چیز پر اترا جاؤ، اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔ (سورۃ الحدید: ٢٢ -٢٣) آدمی اگر تقدیر پر یقین کرے تو مصائب و حوادث پر اس کو اطمینان قلب ہوگا، اور وہ اس پر صبر کرے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہوگا، اور اسے ایمان کی حلاوت کا احساس ہوگا۔ حدیث کا دوسرا ٹکڑا: وما أخطأك لم يكن يصيبك پہلے فقرے ہی کے معنی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو تقدیر میں نہ ہونا لکھ دیا ہے، وہ کبھی واقع نہیں ہوسکتی، مثلاً اگر ایک آدمی نے کسی تجارت گاہ کا رخ کیا، لیکن وہاں پہنچنے پر پتہ چلا کہ بازار بند ہوگیا، تو اس کو کہا جائے گا کہ یہ تجارتی فائدہ جو تم کو نہ ملا، اسے تم کو ہرگز ہرگز نہ ملنا تھا چاہے تم اس کے لئے جتنا بھی جتن اور کوشش کرتے، یا ہم یہ کہیں کہ یہ تم کو حاصل ہونے والا نہ تھا اس لئے کہ معاملہ اللہ کے قضا و قدر کے مطابق طے ہونا تھا، آدمی کو اس عقیدہ کا تجربہ کرکے یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا اس کے بعد اس کو ایمان کی حلاوت کا احساس ہوا یا نہیں۔ ٢ ؎: سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ انسان تقدیر پر ایمان رکھے، اور شیطانی وسوسوں سے بچے، اور تقدیر کے منکروں سے میل جول نہ رکھے بلکہ ان سے دور رہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کے اچھے اعمال بغیر ایمان کے ہرگز قبول نہیں ہوتے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر انسان اس قضا و قدر کے اسلامی عقیدہ کے سوا کسی اور عقیدہ پر مرا تو وہ جہنم میں جائے گا، مراد اس سے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا نہیں ہے، جیسے کافروں کے لئے جہنم میں ہمیشہ رہنا ہے، اس لئے کہ اہل قبلہ اپنے گناہوں کی سزا میں عذاب پانے کے بعد اگر وہ موحد ہیں تو جہنم سے نکالے جائیں گے۔
Top