مسند امام احمد - - حدیث نمبر 483
حدیث نمبر: 3316
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو جَنَابٍ الْكَلْبِيُّ، عَنْ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ كَانَ لَهُ مَالٌ يُبَلِّغُهُ حَجَّ بَيْتِ رَبِّهِ أَوْ تَجِبُ عَلَيْهِ فِيهِ الزَّكَاةُ فَلَمْ يَفْعَلْ سَأَلَ الرَّجْعَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏اتَّقِ اللَّهَ إِنَّمَا سَأَلَ الرَّجْعَةَ الْكُفَّارُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَتْلُو عَلَيْكَ بِذَلِكَ قُرْآنًا:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلا أَوْلادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ‏‏‏‏ 9 ‏‏‏‏ وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِلَى قَوْلِهِ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ سورة المنافقون آية 8 ـ 11 قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا يُوجِبُ الزَّكَاةَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا بَلَغَ الْمَالُ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَصَاعِدًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا يُوجِبُ الْحَجَّ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الزَّادُ وَالْبَعِيرُ .
سورت منافقون کی تفسیر
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ جس کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ حج بیت اللہ کو جاسکے یا اس پر اس میں زکاۃ واجب ہوتی ہو اور وہ حج کو نہ جائے، زکاۃ ادا نہ کرے تو وہ مرتے وقت اللہ سے درخواست کرے گا کہ اسے وہ دنیا میں دوبارہ لوٹا دے، ایک شخص نے کہا: ابن عباس! اللہ سے ڈرو، دوبارہ لوٹا دیئے جانے کی آرزو تو کفار کریں گے (نہ کہ مسلمین) ابن عباس ؓ نے کہا: میں تمہیں اس کے متعلق قرآن پڑھ کر سناتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا «يا أيها الذين آمنوا لا تلهكم أموالکم ولا أولادکم عن ذکر اللہ ومن يفعل ذلک فأولئك هم الخاسرون وأنفقوا من ما رزقناکم من قبل أن يأتي أحدکم الموت» سے «والله خبير بما تعملون» اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں، اور جس نے ایسا کیا وہی لوگ ہیں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے، اور جو روزی ہم نے تمہیں دی ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے اور وہ کہنے لگے کہ اے میرے رب! کیوں نہ تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دے لیتا، اور نیک لوگوں میں سے ہوجاتا اور جب کسی کا مقررہ وقت آ جاتا ہے پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو سب معلوم ہے (المنافقین: ٩- ١١) ، تک۔ اس نے پوچھا: کتنے مال میں زکاۃ واجب ہوجاتی ہے؟ ابن عباس ؓ نے کہا: جب مال دو سو درہم ١ ؎ ہوجائے یا زیادہ، پھر پوچھا: حج کب واجب ہوتا ہے؟ کہا: جب توشہ اور سواری کا انتظام ہوجائے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف: ٥٦٨٩) (ضعیف الإسناد) (سند میں ضحاک بن مزاحم کثیر الارسال ہیں، اور ابو جناب کلبی ضعیف راوی ہیں)
وضاحت: ١ ؎: یعنی ٥٩٥ گرام چاندی ہوجائے تو اس پر زکاۃ ہے، ١٢ فیصد زکاۃ ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (5803)، القسم الأول منه //
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3316
Top