مشکوٰۃ المصابیح - جن لوگوں کو زکوۃ کا مال لینا اور کھانا حلال نہیں ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 1827
حدیث نمبر: 569
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَكَمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا أَتَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدِ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ لَا تُصَلِّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَعَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ:‏‏‏‏ أَمَا تَذْكُرُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَإِذْ أَنَا وَأَنْتَ فِي سَرِيَّةٍ فَأَجْنَبْنَا فَلَمْ نَجِدِ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّكْتُ فِي التُّرَابِ فَصَلَّيْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ وَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْهِ إِلَى الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَفَخَ فِيهِمَا وَمَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ.
تمیم میں ایک مرتبہ ہاتھ مارنا
عبدالرحمٰن بن ابزی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی عمر بن خطاب ؓ کے پاس آیا، اور کہا کہ میں جنبی ہوگیا اور پانی نہیں پایا، تو عمر ؓ نے کہا: نماز نہ پڑھو، اس پر عمار بن یاسر ؓ نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ ایک لشکر میں تھے، ہم جنبی ہوگئے، اور ہمیں پانی نہ مل سکا تو آپ نے نماز نہیں پڑھی، اور میں مٹی میں لوٹا، اور نماز پڑھ لی، جب میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: تمہارے لیے بس اتنا کافی تھا ، اور نبی اکرم ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، پھر ان دونوں میں پھونک ماری، اور اپنے چہرے اور دونوں پہنچوں پر اسے مل لیا ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التیمم ٤ (٣٣٨)، ٥ (٣٣٩)، صحیح مسلم/الحیض ٢٨ (٣٦٨)، سنن ابی داود/الطہارة ١٢٣ (٣٢٢، ٣٢٣)، سنن الترمذی/الطہارة ١١٠ (١٤٤)، سنن النسائی/الطہارة ١٩٦ (٣١٣)، ١٩٩ (٣١٧)، ٢٠٠ (٣١٨)، ٢٠١ (٣١٩)، ٢٠٢ (٣٢٠)، (تحفة الأشراف: ١٠٣٦٢)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/٢٦٣، ٢٦٥، ٣١٩، ٣٢٠، سنن الدارمی/الطہارة ٦٦ (٧٧٢) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: تیمم یہی ہے کہ زمین پر ایک بار ہاتھ مار کر منہ اور دونوں پہنچوں پر مسح کرے، اور جنابت سے پاکی کا طریقہ حدث کے تیمم کی طرح ہے، اور عمر ؓ کو باوصف اتنے علم کے اس مسئلہ کی خبر نہ تھی، اسی طرح عبد اللہ بن مسعود ؓ کو، یہ دونوں جلیل القدر صحابہ جنبی کے لئے تیمم جائز نہیں سمجھتے تھے، اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ کبھی بڑے عالم دین پر معمولی مسائل پوشیدہ رہ جاتے ہیں، ان دونوں کے تبحر علمی اور جلالت شان میں کسی کو کلام نہیں ہے، لیکن حدیث اور قرآن کے خلاف ان کا قول بھی ناقابل قبول ہے، پھر کتاب و سنت کے دلائل کے سامنے دوسرے علماء کے اقوال کی کیا حیثیت ہے، اس قصہ سے معلوم ہوا کہ ہمیں صرف رسول اکرم کے اسوہ سے مطلب ہے۔
Top