مشکوٰۃ المصابیح - ممنوع چیزوں یعنی ترک ملاقات انقطاع تعلق اور عیب جوئی کا بیان - حدیث نمبر 1599
حدیث نمبر: 2166
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَرَامِ بْنِ مُحَيِّصَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَسْبِ الْحَجَّامِ؟ فَنَهَاهُ عَنْهُ فَذَكَرَ لَهُ الْحَاجَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اعْلِفْهُ نَوَاضِحَكَ.
بچھنے لگانے والے کی کمائی۔
محیصہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حجام (پچھنا لگانے والے) کی کمائی کے متعلق نبی اکرم ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے ان کو اس سے منع فرمایا، انہوں نے اس کی ضرورت بیان کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے پانی لانے والے اونٹوں کو اسے کھلا دو ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ٣٩ (٣٤٢٢)، سنن الترمذی/البیوع ٤٧ (١٢٧٦، ١٢٧٧)، (تحفة الأشراف: ١١٢٣٨)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الإستئذان ١٠ (٢٨)، مسند احمد (٥/٤٣٥، ٤٣٦) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: محیصہ بن مسعود ؓ کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پچھنا لگانے کی اجرت حرام ہے، کیونکہ نبی اکرم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ جب کہ انس اور ابن عباس ؓ کی حدیثیں صحیحین میں موجود ہیں کہ آپ نے ابو طیبہ کے ہاتھ سے پچھنا لگوایا اور اس کو گیہوں کے دو صاع (پانچ کلو) دیئے، واضح رہے کہ پچھنا لگانے والے کی اجرت کلی طور پر حرام نہیں ہے، بلکہ اس میں ایک نوع کی کراہت ہے، اور اس کا صرف کرنا اپنے کھانے پینے یا دوسروں کے کھلانے پلانے یا صدقہ میں مناسب نہیں بلکہ جانوروں کی خوراک میں صرف کرنا بہتر ہے جیسا کہ گذشتہ حدیث میں مذکور ہے، یا جو اس کی مثل ہو، جیسے چراغ کی روشنی یا پاخانہ کی مرمت میں، اور اس طریق سے دونوں کی حدیثیں مطابق ہوجاتی ہیں، اور تعارض نہیں رہتا۔ (ملاحظہ ہو: الروضہ الندیہ)۔
Top