مشکوٰۃ المصابیح - ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان - حدیث نمبر 1453
حدیث نمبر: 2316
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ الْجَحْدَرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ لَا يَقْضِي الْقَاضِي بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ هِشَامٌ فِي حَدِيثِهِ:‏‏‏‏ لَا يَنْبَغِي لِلْحَاكِمِ أَنْ يَقْضِيَ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ.
حاکم غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے
ابوبکرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قاضی غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے ١ ؎۔ ہشام کی روایت کے الفاظ ہیں: حاکم کے لیے مناسب نہیں کہ وہ غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرے ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأحکام ١٣ (٧١٥٨)، صحیح مسلم/الأقضیة ٧ (١٧١٧)، سنن ابی داود/الأقضیة ٩ (٣٥٨٩)، سنن الترمذی/الأحکام ٧ (١٣٣٤)، سنن النسائی/آداب القضاة ١٧ (٥٤٠٨)، ٣١ (٥٤٢٣)، (تحفة الأشراف: ١١٦٧٦)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٥/٣٦، ٣٧، ٣٨، ٤٦، ٥٢) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: نبی کریم نے جو غصہ کی حالت میں زبیر ؓ کا فیصلہ ایک انصاری کے ساتھ کیا تو یہ آپ کی خصوصیت تھی کیونکہ آپ حالت غضب اور رضا دونوں میں معصوم تھے، اور ظاہر یہ ہے کہ ممانعت تحریمی ہے، اس پر جمہور علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر کوئی غصہ کی حالت میں فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ حق ہو تو صحیح ہوگا، علامہ ابن القیم کہتے ہیں کہ مفتی سخت غصہ، یا زیادہ بھوک، یا زیادہ قلق، یا پریشان کن خوف و ڈر، یا نیند کا غلبہ، یا پاخانہ پیشاب کی حاجت میں فتوی نہ دے، اسی طرح جب دل اور طرف لگا ہوا ہو، بلکہ جب آدمی یہ محسوس کرے کہ مذکورہ امور کی وجہ سے وہ اعتدال کی حالت سے باہر چلا گیا ہے، اور اس کی تحقیق و جستجو کی قدرت متاثر ہوگئی ہے، تو اس کو فتویٰ سے رک جانا چاہیے، اس پر بھی اگر وہ ان حالتوں میں فتویٰ دیتا ہے تو اس کا فتویٰ صحیح ہے لیکن اگر ایسی حالت میں فیصلہ کرتا ہے، تو کیا اس کا فیصلہ نافذ ہوگا، یا نہیں نافذ ہوگا؟ اس بارے میں امام احمد کے مذہب میں تین اقوال ہیں: پہلا یہ کہ نافذ ہوگا، دوسرا یہ کہ نافذ نہیں ہوگا، تیسرا یہ کہ مسئلہ کو سمجھنے کے بعد اگر غصہ ہو تو اس میں نافذ ہوگا، اور اگر مسئلہ کے سمجھنے سے پہلے غصہ ہو تو نافذ نہیں ہوگا۔ (ملاحظہ ہو: الروضۃ الندیۃ ٣ /٢٣٣ )
Top