معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 136
عَنْ أَنَسِ عَنِ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، ابْكُوا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِيْعُوْا فَتَبَاكَوْا؛ فَإِنَّ أَهْلَ النَّارِ يَبْكُونَ فِى النَّارِ حَتَّى تَسِيلَ دُمُوعُهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ كَأَنَّهَا جَدَاوِلُ حَتَّى تَنْقَطِعَ الدُّمُوعُ فَتَسِيلَ الدِّمَاءُ، فَتَقْرَحَ الْعُيُونَ، فَلَوْ أَنَّ سُفُنًا أُجْرِيَتْ فِيهِ لَجَرَتْ» (رواه البغوى فى شرح السنة)
دوزخ اور اس کا عذاب
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنے ایک خطاب میں) فرمایا کہ: اے لوگو (اللہ اور اس کے عذاب کے خوف سے) خوب روؤ، اوراگر تم یہ نہ کر سکو، یعنی اگر حقیقی گریہ کی کیفیت تم پر طاری نہ ہو (کیوں کہ وہ ایسی اختیاری چیز نہیں ہے کہ آدمی جب چاہے اس کو اپنے اندر پیدا کر سکے) تو پھر (اللہ کے قہر اور اس کے عذاب کا خیال کر کے) تکل سے روؤ، اور رونے کی شکل بناؤ، کیوں کہ دوزخی دوزخ میں اتنا روئیں گے کہ ان کے چہروں پر ان کے آنسو ایسے بہیں گے، کہ گویا وہ (بہتی ہوئی) نالیاں ہیں، یہاں تک کہ آنسو ختم ہو جائیں گے، اور پھر (آنسوؤں کی جگہ) خون بہے گا اور پھر (اس خون بہنے سے) آنکھوں میں زخم پڑ جائیں گے (اور پھر ان زخموں سے اور زیادہ خون جاری ہو گا، اور ان دوزخیوں کے ان آنسوؤں اور خونوں کی مجموعی مقدار اتنی ہو گی کہ اگر کشتیاں اس میں چلائی جائیں تو خوب چلیں۔ (شرح السنہ)

تشریح
حدیث کا مقصد یہ ہے کہ دوزخ میں اتنا دکھ اور ایسا عذاب ہو گا، کہ آنکھیں آنسوؤں کا ذخیرہ ختم کر کے خون روئیں گی، اور اس مسلسل رونے سے ان میں زخم پڑ جائیں گے، پس وہاں کے اس دکھ اور عذاب سے، اور آنسوؤں کا اور خون کا دریا بہانے والے اس رونے سے بچنے کے لیے آدمیوں کو چاہئے، کہ وہ یہاں اپنے اندر خدا کا خوف پیدا کریں، اور روئیں، دوسری ایک حدیث میں ہے کہ "لَا يَلِجُ النَّارَ أَحَدٌ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللهِ، حَتَّى يَعُودَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ" (۱) (یعنی جو یہاں اللہ کے خوف سے روئے گا، وہ ہرگز دوزخ میں نہیں جائے گا) بہرحال اللہ کے خوف سے رونا اور اگر رونا نہ آئے تو رونے کی صورت ہی بنانا، اللہ کے رحم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا خاص ذریعہ ہے، اور دوزخ کے عذاب سے بچانے والے خاص اعمال میں سے ہے۔
Top