Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (141 - 241)
Select Hadith
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 725
عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا ، فَقَالَ : مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ؟ قَالُوا : كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا : يَوْمَ الْأَضْحَى ، وَيَوْمَ الْفِطْرِ " (رواه ابوداؤد)
عیدین کا آغاز
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ (جن کی کافی تعداد پہلے ہی سے اسلام قبول کر چکی تھی) دو تہوار منایا کرتے تھے، اور ان میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ: یہ دو دن جو تم مناتے ہو ان کی کیا حقیقت اور حیثیت ہے؟ (یعنی تمہارے ان تہواروں کی کیا اصلیت اور تاریخ ہے؟) انہوں نے عرض کیا کہ: ہم جاہلیت میں (یعنی) اسلام سے پہلے یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے (بس وہی رواج ہے جو اب تک چل رہا ہے) رسول اللہ ﷺ نے فریاما کہ: اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دو تہواروں کے بدلہ میں ان سے بہتر دو دن تمہارے لیے مقرر کر دئیے ہیں (اب وہی تمہارے قومی اور مذہبی تہوار ہیں) عید الاضحیٰ یوم اور عید الفطر۔ (سنن ابی داؤد)
تشریح
عید الفطر و عید الاضحیٰ ہر قوم کے کچھ خاص تہوار اور جشن کے دن ہوتے ہیں جن مین اس قوم کے لوگ اپنی اپنی حیثیت اور سطح کے مطابق اچھا لباس پہنتے اور عمدہ کھانے پکاتے کھاتے ہیں، اور دوسرے طریقوں سے بھی اپنی اندرونی مسرت و خوشی کا اظہار کرتے ہیں، یہ گویا انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ اسی لئے انسانوں کا کوئی طبقہ اور فرقہ ایسا نہیں ہے جس کے ہاں تہوار اور جشن کے کچھ خاص دن نہ ہوں۔ اسلام میں بھی ایسے دو دن رکھے گئے ہیں ایک عید الفطر اور دوسرے عید الاضحیٰ بس یہی مسلمانوں کے اصلی مذہبی و ملی تہوار ہیں۔ ان کے علاوہ مسلمان جو تہوار مناتے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت اور بنیاد نہیں ہے، بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے ان میں سے اکثر خرافات ہیں۔ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب کہ رسول اللہ ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ آئے۔ عید الفطر اور عید الاضحیٰ ان دونوں تہواروں کا سلسلہ بھی اسی وقت سے شروع ہوا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے کہ عید الفطر رمضان المبارک کے ختم ہونے پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے اور عید الاضحیٰ ۱۰ ذی الحجہ کو۔ رمضان المبارک دینی و روحانی حیثیت سے سال کے بارہ مہینوں میں سب سے مبارک مہینہ ہے۔ اسی مہینہ میں قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا، اسی پورے مہینے کے روزے امت مسلمہ پر فرض کئے گئے، اس کی راتوں میں ایک مستقل با جماعت نماز کا اضافہ کیا گیا ہے اور ہر طرح کی نیکیوں میں اضافہ کی ترغیب دی گئی۔ الغرض یہ پورا مہینہ خواہشات کی قربانی اور مجاہدہ اور ہر طرح کی طاعات و عبادات کی کثرت کا مہینہ قرار دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس مہینہ کے خاتمہ پر جو دن آئے ایمانی اور روحانی برکتوں کے لحاظ سے وہی سب سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ ان کو اس امت کے جشن و مسرت کا دن اور تہوار بنایا جائے، چنانچہ اسی دن کو عید الفطر قرار دیا گیا۔ اور ۱۰ ذی الحجہ وہ مبارک تاریخی دن ہے جس میں امت سملمہ کے موسس و مورث ایلیٰ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی دانست میں اللہ تعالیٰ کا حکم و اشارہ پا کر اپنے لخت جگر سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کو ان کی رضا مندی سے قربانی کے لیے اللہ کے حضور میں پیش کر کے اور ان کے گلے پہ چھری رکھ کر اپنی سچی وفاداری اور کامل تسلیم و رضا کا ثبوت دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے عشق و محبت اور قربانی کے اس امتحان میں ان کو کامیاب قرار دے کر حضرت اسماعیل کو زندہ و سلامت رکھ کر ان کی جگہ ایک جانور کی قربانی قبول فرما لی تھی، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سر پر " انى جاعلك للناس اماما " کا تاج رکھ دیا تھا، اور ان کی اس ادا کی نقل کو قیامت تک کے لئے " رسم عاشقی " قرار دے دیا تھا، پس اگر کوئی دن کسی عظیم تاریخی واقعہ کی یادگار کی حیثیت سے تہوار قرار دیا جا سکتا ہے تو اس امت مسلمہ کے لئے جو ملت ابراہیمی کی وارث اور اوہ خلیلی کی نمائندہ ہے ۱۰ ذی الحجہ کے دن کے مقابلے میں کوئی دوسرا دن اس کا مستحق نہیں ہو سکتا، اس لئے دوسری عید ۱۰ ذی الحجہ کو قرار دیا گیا۔ جس وادی غیر ذی ذرع میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا یہ واقعہ پیش آیا تھا اسی وادی میں پورے عالم اسلامی کا حج کا سالانہ اجتماع اور اس کے مناسک قربانی وغیرہ اس واقعہ کی گویا اصل اور اول درجے کی یادگار ہے اور ہر اسلامی شہر اور بستی میں عید الاضحیٰ کی تقریبات نماز اور قربانی وغیرہ بھی اسی کی گویا نقل اور دوم درجہ کی یادگار ہے۔ بہرحال ان دونوں (یکم شوال اور ۱۰ ذی الحجہ) کی ان خصوصیات کی وجہ سے ان کو یوم العید اور امت مسلمہ کا تہوار قرار دیا گیا۔ اس تمہید کے بعد ان دونوں عیدوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں ذیل میں پڑھئے۔ اصل مقصد تو یہاں " کتاب الصلوٰۃ " میں عیدین کی نماز کا بیان ہے، لیکن ضمنا اور تبعا ان دونوں عیدوں سے متعلق دوسرے اعمال و احکام کی حدیثیں بھی یہیں درج کی جائیں گی، جیسا کہ حضرات محدثین کا عام طریقہ ہے۔ تشریح ..... قوموں کے تہوار دراصل ان کے عقائد و تصورات اور ان کی تاریخ و روایات کے ترجمان اور ان کے قومی مزاج کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے ظاہر ہے کہ اسلام سے پہلے اپنی جاہلیت کے دور میں اہل مدینہ جو دو تہوار مناتے تھے وہ جاہلی مزاج تصورات اور جاہلی روایات ہی کے آئینہ دار ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے بلکہ حدیث کے صریح الفاظ کے مطابق خود اللہ تعالیٰ نے ان قدیمی تہواروں کو ختم کرا کے ان کی جگہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ دو تہوار اس امت کے لئے مقرر فرما دئیے جو اس کے توحیدی مزاج اور اصول حیات کے عین مطابق اور اس کی تاریخ و روایات اور عقائد و تصورات کے پوری طرح آئینہ دار ہیں۔ کاش اگر مسلمان انے ان تہواروں ہی کو صحیح طور پر اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایت و تعلیم کے مطابق منائیں تو اسلام کی روح اور اس کے پیغام کو سمجھنے سمجھانے کے لئے صرف یہ دو تہوار ہی کافی ہو سکتے ہیں۔
Top