معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1494
عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ إِنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ. فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَشْرٌ. ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ. فَرَدَّ عَلَيْهِ فَجَلَسَ فَقَالَ: عِشْرُونَ. ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ. فَرَدَّ عَلَيْهِ فَجَلَسَ فَقَالَ: ثَلاَثُونَ. (رواه الترمذى وابوداؤد)
سلام کا اجر و ثواب
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ " آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا، پھر وہ مجلس میں بیٹھ گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:"دس (یعنی اس بندے کے لئے اس کے سلام کی وجہ سے دس نیکیاں لکھی گئیں)"پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ " آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا، پھر وہ آدمی بیٹھ گیا تو تو آپ ﷺ نے فرمایا:"بیس (یعنی اس کے لئے بیس نیکیاں لکھی گئیں)"پھر ایک تیسرا آدمی آیا اور اس نے کہا: " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ " آپ ﷺ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور وہ مجلس میں بیٹھ گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:"تیس (یعنی اس کے لئے تیس نیکیاں ثابت ہو گئیں)۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد)

تشریح
اللہ تعالیٰ کا یہ کریمانہ قانون ہے کہ اس نے ایک نیکی کا اجر اس آخری امت کے لئے دس نیکیوں کے برابر مقرر کیا ہے۔ قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا: "مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا" اسی بناء پر رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے حق میں جس نے صرف ایک کلمہ "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ" کہا تھا، فرمایا کہ: اس کے لیے دس نیکیاں ثابت ہو گئیں۔ اور جس شخص نے اس کے ساتھ دوسرے کلمہ "وَرَحْمَةُ اللَّهِ" کا بھی اضافہ کیا، اس کے لئے آپ فرمایا کہ: بیس نیکیاں ثابت ہو گئیں۔ اور تیسرے شخص کے لئے جس نے کلمہ "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ" کے ساتھ "وَبَرَكَاتُهُ" کا اضافہ کیا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ:اس کے لیے ۳۰نیکیاں ثابت ہو گئیں۔ اسی حساب سے سلام کا جواب دینے والا بھی اجر و دثواب کا مستحق ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ان حقیقتوں کا یقینی نصیب فرمائے اور رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور رحمت حاصؒ کرنے کے جو راستے ہیں ان کی قدر اور استفادے کی توفیق دے۔ امام مالکؒ نے ابی بن کعب کے صاحبزادے طفیل کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ ان کا طریقہ تھا کہ وہ ہمیں ساتھ لے کر بازار جاتے اور جس دکاندار اور جس کباڑئیے اور جس فقیر و مسکین کے پاس سے گزرتے اس کو بس سلام کرتے (اور کچھ خرید و فروخت کے بغیر واپس آ جاتے) ایک دن میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، تو معمول کے مطابق مجھے ساتھ لے کربازار جانے لگے میں نے عرض کیا کہ آپ بازار جا کے کیا کریں گے؟ نہ تو آپ کسی دکان پر کھڑے ہوتے ہیں، نہ کسی چیز کا سودا کرتے ہیں، نہ بھاؤ ہی کی بات کرتے ہیں، اور بازار کی مجلسوں میں بھی نہیں بیٹھتے (پھر آپ بازار کس لئے جائیں؟) یہیں بیٹھئے، باتیں ہوں اور ہم استفادہ کریں! حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ: ہم تو صرف اس غرض اور اس نیت سے بازار جاتے ہیں کہ جو سامنے پڑے اس کو سلام کریں اور ہر سلام پر کم از کم دس نیکیاں کما کر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور بندگانِ خدا کے جوابی سلاموں کی برکتیں حاصل کریں۔)
Top