معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1738
عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " طَلَبُ كَسْبِ الْحَلَالِ فَرِيضَةٌ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
حلال روزی حاصل کرنے کی فکروکوشش فرائض میں سے ہے
حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حلال حاصل کرنے کی فکر و کوشش فرض کے بعد فریضہ ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
بسم اللہ الرحمن الرحیم معاشی معاملات ...... انسانوں کی فطری ضرورت اس باب میں خداوندی ہدایت اور اس کے بنیادی اصول اللہ تعالی نے انسان کو مدنی الطبع بنایا ہے یعنی انسان کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں باہمی تعاون اور معاملاتی لین دین کے محتاج ہیں ہر فرد اور طبقہ کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے مثلا ایک مزدور جسکی زندگی کی ضرورت ہے بہت مختصر ہے جو صبح سے شام تک محنت مزدوری کرکے بس گزارہ کے پیسے حاصل کرتا ہے اسے بھی ضرورت ہے اس آدمی کی جس سے وہ اپنا اور بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے غلہ وغیرہ خرید سکے اورغلہ پیدا کرنے والے کاشتکار کو ضرورت ہے اس مزدور کی جس سے وہ اپنی کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے اسی طرح مزدور اور کاشتکار دونوں کو ضرورت ہے اس آدمی کی جو ان کے لباس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کپڑا تیار کرے اور یہ اس سے بلا واسطہ یا بالواسطہ کپڑا خرید سکیں اور کپڑا تیار کرنے والے کو ضرورت ہے اس آدمی یا اس ایجنسی کی جس سے وہ سوت یا ریشم اور کپڑے کی صنعت کی دوسری ضروریات نقد یا قرض ادھار خرید سکے پھر ان میں سے کسی کو رہنے کے لئے مکان تعمیر کرنا ہو تو اس کو ضرورت ہوگی کسی سے اینٹ سیمنٹ وغیرہ تعمیری ضروریات خریدنے کی اور اس کے بنوانے کے لئے معماروں اور مزدوروں کی۔ پھر خدانخواستہ ان میں سے کوئی بیمار پڑ جائے تو ضرورت ہوگی حکیم ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی اور دواؤں کی دوکان سے دوا خریدنے کی۔ الغرض اشیاء کی خرید و فروخت اور تجارتی مبادلہ اور محنت و مزدوری اور صنعت و زراعت اور قرض وعاریت وغیرہ معاشی معاملات اس دنیا میں انسانی زندگی کے لوازم ہیں پھر ان معاملات میں کبھی کبھی تنازعات کا پیدا ہونا بھی ناگزیر ہے ان کے حل کے لئے ضرورت ہے عدل و انصاف کے کسی نظام کی اور کسی دستور و قانون کی۔ یہ جو کچھ عرض کیا گیا کوئی فلسفہ یا منطق کا مسئلہ نہیں ہے سب مشاہدہ اور ہم سب کا روزمرہ کا تجربہ ہے۔ اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے اور سب سے آخر میں خاتم الانبیاء سیدنا حضرت محمد ﷺ کے ذریعے جس طرح انسانوں کو یہ ہدایت دی کہ وہ اپنے آغاز و انجام کے بارے میں اپنے پیدا کرنے والے مالک و معبود کی ذات و صفات اور توحید و آخرت وغیرہ کے بارے میں کیا عقیدہ اور یقین رکھیں اور کس طرح اس کی عبادت کریں اور کونسے اعمال ان کی روحانیت اور انسانی شرافت کے لیے مضر اور مہلک ہیں جن سے وہ بچیں اور پرہیز کریں اور اخلاق اور معاشرت کے بارے میں ان کا رویہ کیا رہے اسی طرح اس نے خریدوفروخت صنعت و تجارت اور محنت مزدوری وغیرہ ان معاشی معاملات کے بارے میں جو انسانی شرافت وعظمت سے مطابقت رکھتے ہیں اور جن میں انسانوں کی دنیوی و اخروی فلاح ہے۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ اس خداوندی ہدایت اور اس شعبے سے متعلق شریعت محمدی کے احکام کی پابندی اور پیروی کرتے ہوئے ان کاموں کا کرنا اب دنیا نہیں بلکہ عین دین اور ایک معنی کر عبادت ہے اور اللہ کی طرف سے اس پر اسی طرح اجر و ثواب اور جنت کے درجات عالیہ کا وعدہ ہے جس طرح نماز روزہ اور ذکر و تلاوت وغیرہ اچھے اخلاق پر اور دین کی دعوت اور خدا کی راہ میں جان و مال کی قربانی پر۔ انسانی زندگی کے اس شعبہ یعنی معاملات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ذریعے جو ہدایتیں اور جو احکام امت کو ملے ہیں ان کی بنیاد جہاں تک ہم نے سمجھا ہے چار اصولوں پر ہے ایک خلق اللہ کی نفع رسانی۔ دوسرے عدل۔ تیسرے سچائی و دیانت داری۔ چوتھے سماحت۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر فریق دوسرے کے ساتھ رعایت اور خیرخواہی کا معاملہ کرے خاص کر کمزور اور ضرورتمند فریق کو حتی الوسع سہولت دی جائے۔ اس تمہید کے بعد ناظرین کرام معاشی معاملات سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی ہدایات و تعلیمات ذیل میں پڑھیں۔ اللہ تعا لی لکھنے والے اپنے گنہگار بندے کو نیز پڑھنے والوں اور سننے والوں کو ان ہدایات و ارشادات کی پیروی کے اہتمام کی توفیق عطا فرمائے۔ سب سے پہلے حضور ﷺ کے چندوہ ارشادات درج کئے جاتے ہیں جن میں معاشی معاملات کی ہمت افزائی فرمائی گئی ہے اور ان پر اجر و ثواب کی بشارت سنائی گئی ہیں۔ تشریح ..... اکثر شارحین نے حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے اور بظاہر یہی اللہ و رسول پر ایمان اور نماز و زکوۃ وغیرہ جو اسلام کے اولین اور بنیادی ارکان و فرائض ہیں درجہ اور مرتبہ میں ان کے بعد حلال روزی حاصل کرنے کی فکر اور کوشش بھی ایک اسلامی فریضہ ہے۔ بندہ اگر اس سے غفلت برتے اور کوتاہی کرے گا تو خطرہ ہے حرام روزی سے پیٹ بھرے اور آخرت میں اس کا انجام وہ ہوگا جو حرام سے پیٹ بھرنے والوں کا بتلایا گیا ہے۔ اللہ کی پناہ! پھر یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے کسی فریضے کا ادا کرنا اس کی بندگی اور عبادت ہے اور بندہ اس پر اجر و ثواب کا مستحق ہے جو فریضہ کی ادائیگی پر اللہ تعالی کی طرف سے ملنا چاہیے۔ پس کسب حلال کی فکر و کوشش اور اس میں مشغول ہونا عین دین و عبادت اور موجب اجر و ثواب ہے۔ اس میں کسب حلال کے طالب ہر تاجر ہر مزدور ہر کاشتکار اور ہر دست کار کے لیے کتنی بڑی بشارت ہے لیکن یہ بہرحال پیش نظر رہے کہ اس حدیث میں صرف کمائی کرنے کو نہیں بلکہ کسب حلال کی تلاش و فکر کا فریضہ بتلایا گیا ہے اور اس ارشاد کا خاص مقصد اور مطمع نظر حرام سے بچانا ہے۔
Top