معارف الحدیث - کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ - حدیث نمبر 1890
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ. (رواه البخارى ومسلم)
بدعت کیا ہے؟
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو اس کی وہ بات رد ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کا آخری جملہ ہے "وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ" (ہر بدعت گمراہی ہے) بعض اکابر علماء و شارحین حدیث نے بدعت کے اصل لغوی معنیٰ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سمجھا اور لکھا ہے کہ ہر وہ امر بدعت ہے جو عہد نبوی میں نہیں تھا اور قرآن و حدیث میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ ایسے بہت سے امور ہیں جو نہ تو عہدنبوی میں تھے اور نہ قرآن وحدیث میں ان کا ذکر ہے مگر دینی لحاظ سے وہ اشد ضروری اور ناگزیر ہیں اور امت کے علماء و فقہا میں سے کسی نے بھی ان کو بدعت اور ناجائز نہیں قرار دیا ہے۔ بلکہ دین کی ضروری خدمت اور موجب اجر و ثواب سمجھا ہے۔ مثلا قرآن مجید پر اعراب لگانا فصل و وصل اور وقف وغیرہ کی علامات کا لکھنا تاکہ عوام بھی قرآن پاک کی صحیح تلاوت کر سکیں اسی طرح حدیث اور فقہ کی تدوین اور کتابوں کی تالیف اور حسب ضرورت زبانوں میں دینی موضوعات پر تصانیف اور ان کی طباعت و اشاعت کا اہتمام اور دینی تعلیم کے لئے مکاتب و مدارس کا قیام وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب چیزیں ظاہر ہے کہ عہد نبوی میں نہیں تھیں اور قرآن و حدیث میں بھی ان کا کہیں ذکر نہیں ہیں تو بدعت کی مذکورہ بالا تشریح کے لحاظ سے یہ سب امور بدعت ہونے چاہیئیں۔ اسی طرح ساری نئی ایجادات اریل موٹر، ہوائی جہاز، تاربرقی اور ٹیلی فون وغیرہ کا استعمال بھی اس تشریح کے لحاظ سے بدعت اور ناجائز ہونا چاہیے حالانکہ یہ بات بداہۃً غلط ہے۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ان علماء و شارحین حدیث نے کہا ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو کتاب وسنت اور اصول شریعت کے خلاف ہو وہ بدعات سیئہ ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے اسی کے بارے میں فرمایا ہے "وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ" ...... مطلب یہ ہے کہ ہر "بدعت سیئہ" گمراہی ہے اور دوسری قسم بدعت کی وہ ہے جو کتاب و سنت اور اصول شریعت کے خلاف نہ ہو بلکہ مطابق ہو وہ "بدعت حسنہ" ہے اور بدعت حسنہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے کبھی واجب ہوتی ہے کبھی مستحب اور کبھی مباح ہو جائز۔ پس قرآن مجید پر اعراب اور فصل و وصل وغیرہ کی علامات لکھنا اور حدیث و فقہ کی تدوین اور حسب تقاضائے ضرورت مختلف زبانوں میں دینی موضوعات پر کتابوں کی تصنیف و اشاعت اور مدارس کا قیام وغیرہ یہ سب بدعت حسنہ کے قبیل سے ہیں اسی طرح نئی ایجادات کا استعمال بھی یہ بدعت حسنہ ہی کے قبیل سے ہے ناجائز نہیں ہے مباح اور جائز ہے۔ لیکن علمائے محققین بدعت کی مذکورہ بالا تشریح اور حسنہ اور سیئہ کی طرف ان کی تقسیم کے اس نظریہ سے متفق نہیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایمان و کفر اور صلوۃ و زکاة وغیرہ کی طرح بدعت ایک خاص دینی اصطلاح ہے اور اس سے مراد ہر وہ عمل ہے جس کو دینی رنگ دے کر دین میں شامل کیا جائے اور اگر وہ کوئی عمل ہے تو اس کو دینی عمل کی حیثیت سے کیا جائے اور عبادات وغیرہ دینی امور کی طرح اس کو ثواب آخرت اور رضائے الہی کا وسیلہ سمجھائے اور شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہ ہو نہ کتاب و سنت کی نص نہ قیاس اور اجتہاد وہ استحسان جو شریعت میں معتبر ہے۔ ظاہر ہے کہ بدعت کی اس تشریح کی بنا پر ان میں ایجادات کا استعمال اور وہ نئی باتیں جو عہدنبوی میں نہیں تھی اور جن کو امر دینی نہیں سمجھا جاتا بدعت کے دائرے ہی میں نہیں آتیں۔ جیسے کہ ریل موٹر ہوائی جہاز وغیرہ کے ذریعہ سفر اور اسی طرح کی دوسری جدید چیزوں کا استعمال اسی طرح جس زمانے میں دینی مقاصد کی تحصیل و تکمیل اور دینی احکام کی تعمیل کے لیے جن جدید وسائل کا استعمال کرنا ضروری ہو وہ بھی بدعت کی اس تشریح کی بنا پر اس کے دائرے میں نہیں آئیں گی جیسے قرآن مجید پر اعراب وغیرہ لگانا تاکہ عوام بھی صحیح تلاوت کرسکے اور کتب حدیث کی تالیف اور ان کی شرحیں لکھنا اور فقہ کی تدوین اور مختلف زبانوں میں حسب ضرورت دینی موضوعات پر کتابوں کی تصنیف و اشاعت کا اہتمام اور دینی مدارس اور کتب خانوں کا قیام وغیرہ یہ سب چیزیں بھی بدعت کیا اس تشریح کی بنا پر اس کے دائرے میں نہیں آئیں گی کیوں کہ اگرچہ یہ عہد نبوی میں نہیں تھیں لیکن جب اہم دینی مقاصد کی تحصیل و تکمیل اور دینی احکام کی تعمیل کے لیے یہ ضروری اور ناگزیر ہوگئیں تو یہ شرعا مطلوب اور مامور بہ ھی ہو گئیں۔ جس طرح وضو کرنا شریعت کا حکم ہے لیکن جب اس کے لیے پانی کا تلاش کرنا یا کنویں سے نکالنا ضروری ہو تو وہ بھی شرعا واجب ہوگا دین و شریعت کا مسلمہ اصول ہے کہ کسی فرض و واجب کے ادا کرنے کے لیے جو کچھ کرنا ضروری اور ناگزیر ہو وہ بھی واجب ہے لہذا اس طرح کے سارے امور جن کا اوپر ذکر کیا گیا بدعت کی اس تشریح کی بنا پر اس کے دائرے میں ہی نہیں آتے بلکہ یہ سب شرعی مطلوبات اور واجبات ہیں۔ بدعت یہی تشریح و تعریف صحیح ہیں اور اس بنا پر ہر بدعت ضلالت ہے جیسا کہ زیر تشریح حدیث میں فرمایا گیا ہے "وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ" (ہر بدعت گمراہی ہے) اس موضوع پر نویں صدی ہجری کے ممتاز عالم و محقق امام ابو اسحاق ابراہیم شاطبی نے اپنی کتاب "الاعتصام" میں بڑی فاضلانہ اور محققانہ بحث کی ہے اور بدعت کی پہلی والی تشریح اور حسنہ اور سیئہ کی طرف اس کی تقسیم کے نظریہ کو بڑے محکم دلائل سے رد کیا ہے اس ضخیم کتاب کا یہی موضوع ہے۔ ہمارے اس ملک کے عظیم ترین عارف و مصلح امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی نے بھی اپنے بہت سے مکتوبات میں اس مسئلہ پر کلام کیا ہے اور بڑی شدت کے ساتھ اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ جن علماء نے بدعات کو دو خانوں (حسنہ اور سیئہ) میں تقسیم کیا ہے ان سے بڑی علمی غلطی ہوئی ہے بدعت حسنہ کوئی چیز نہیں ہے بدعت ہمیشہ سیئہ اور ضلالت ہی ہوتی ہے اگر کسی کو کسی بدعت میں نورانیت محسوس ہوتی ہے تو وہ اس کے احساس و ادراک کی غلطی ہے بدعت میں صرف ظلمت ہوتی ہے۔ صحیح مسلم کی شرح فتح الملہم میں حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے بھی اسی موضوع پر شرح وبسط سے کلام کیا ہیں اور وہ اہل علم کے لئے لائق مطالعہ اور قابل استفادہ ہے۔ تشریح ..... بدعات ومحدثات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بنیادی حیثیت رکھتا ہے اس میں ان محدثات اور نو ایجاد باتوں کو (خواہ وہ اعمال کے قبیلہ سے ہو یا عقائد کے قبیل سے) قابل رد اور مردود قرار دیا گیا ہے جو دین میں ایجاد کی جائیں اور ان کو امر دینی یعنی رضائے الہی اور ثواب اخروی کا وسیلہ سمجھ کر اپنایا جائے اور فی الواقع ان کی یہ حیثیت نہ ہو نہ اللہ رسول کی طرف سے صراحۃ و اشاراة ان کا حکم دیا گیا ہو نہ شرعی اجتہاد و استحسان اور قواعد شریعت پر انکی بنیاد ہو۔ حدیث کے لفظ "فِىْ اَمْرِنَا هَذَا" اور "مَا لَيْسَ مِنْهُ" کا مفاد اور مطلب یہی ہے کہ پس دنیا کی ساری ایجادات اور وہ تمام نئی چیزیں جن کو امر دینی اور وسیلہ رضائے الہی و ثواب اخروی نہیں سمجھا جاتا اس کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور شرعی اصطلاح کے لحاظ سے ان کو بدعت نہیں کہا جائے گا۔ جیسے نئی نئی قسم کے کھانے نئے طرز کے لباس جدید طرز کے مکانات اور سفر کے نئے ترقی کے ذرائع کا استعمال کرنا اسی طرح شادی وغیرہ کی تقریبات کے سلسلہ کے وہ خرافاتی رسوم اور لہو و لعب اور تفریحات کے وہ پروگرام جن کو کوئی بھی امر دینی نہیں سمجھتا ان سے بھی اس حدیث کا کوئی تعلق نہیں ہاں جن رسوم کو امر دینی سمجھا جائے اور ان سے ثواب آخرت کی امید کی جائے وہ اس حدیث کا مصداق قابل رد اور بدعت ہیں موت اور غمی کے سلسلہ کی زیادہ رسوم اسی قبیل سے ہیں جیسے تیجہ دسواں بیسواں چالیسواں برسی ہر جمعرات کو مردوں کی فاتحہ بڑے پیرصاحب کی گیارہویں بارہویں بزرگوں کی قبروں پر چادر وغیرہ چڑھانا اور عرسوں کے میلے ٹھیلے ان سب کو امر دینی سمجھا جاتا ہے اور ثواب آخرت کی ان سے امید رکھی جاتی ہے اس لئے یہ سب حضرت صدیقہ ؓ کی اس حدیث "من احدث فى امرنا هذا ما ليس منه فهو رد" کا مصداق اور مردود بدعات ومحدثات ہیں۔ پھر ان عملی بدعات سے زیادہ مہلک وہ بدعات ہیں جو عقائد کے قبیل سے ہیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ وسلم اور اولیاء اللہ کو عالم الغیب اور حاضروناظر سمجھنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ دور دراز سے پکارنے والوں کی پکار و فریاد کو سنتے ہیں اور ان کی مدد اور حاجت روائی کرتے ہیں یہ عقیدہ بدعت ہونے کے ساتھ شرک بھی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی کا فیصلہ اور اس کی کتاب پاک کا اعلان ہے کہ اس جرم کے مجرم اللہ کی مغفرت و بخشش سے قطعی محروم ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ
Top