معارف الحدیث - کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ - حدیث نمبر 1899
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلاَنِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي. (رواه الترمذى)
اس دور میں نجات کا واحد راستہ اتباع محمدی ہے
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ میری امت میں وہ سب برائیاں آئینگی جو بنی اسرائیل میں آئی تھیں بالکل برابر برابر، یہاں تک کہ اگر بنی اسرائیل میں کوئی ایسا بدبخت ہوا ہوگا جس نے اعلانیہ اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی کوئی ایسا بدبخت ہوگا جو ایسا کرے اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی اور یہ سب جہنمی ہونگے سوائے ایک فرقہ کے (وہی جنتی ہوگا) صحابہؓ نے عرض کیا کہ حضرت وہ کونسا فرقہ ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا جو اس راستے پر ہو گا جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب ہیں۔ (جامع ترمذی) (قریبا اسی مضمون کی ایک حدیث مسند احمد اور سنن ابی داود میں حضرت معاویہ ؓ سے بھی روایت کی گئی ہے)

تشریح
اس حدیث میں جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ صرف ایک پیشن گوئی نہیں ہے بلکہ امت کے لئے بہت بڑی آگاہی ہے مقصد یہ ہے کہ ہر امتی اس کی فکر اور اس کا دھیان رکھے کہ وہ انہیں عقائد و نظریات اور اسی مسلک پر قائم رہے جس پر خود آنحضرت ﷺ اور آپ صلی للہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام تھے نجات اور جنت کی ضمانت انہی کے لئے ہے۔ اس طبقہ نے اپنے لئے اہل السنة والجماعة کا عنوان اختیار کیا ہے (یعنی رسول اللہ ﷺ اور جماعت صحابہ کے طریقہ سے وابستگی رکھنے والے) دوسرے بہتر 72 فرقے جن کے بارے میں اس حدیث میں فرمایا گیا ہے "كُلُّهُمْ فِي النَّارِ"ان سب کی تعیین کے ساتھ نشاندہی نہیں کی جا سکتی بہرحال یہ وہ ہیں جن کا دینی طرز فکر اور اعتقادی مسلک "مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي"سے اصولی طور پر مختلف ہے مثال کے طور پر کہا جا سکتا ہے جیسے زیدیہ معتزلہ جہمیہ اور ہمارے زمانے کے منکرین حدیث اور وہ مبتدعین جن کے عقیدے کا فساد کفر تک نہیں پہنچا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ جن لوگوں نے ایسے عقائد اختیار کرلیا جن کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام ہی سے خارج ہوگئے۔ جیسے قدیم زمانے میں مسیلمہ کذاب وغیرہ مدعیان نبوت کو نبی ماننے والے، یہاں مارے زمانے کے قادیانی، سو ایسے لوگ امت کے دائرہ ہی سے نکل گئے اس لیے یہ ان بہتر فرقوں میں شامل نہیں ہیں یہ بہتر فرقے وہ ہیں جو امت کے دائرہ میں ہیں مگر انہوں نے "مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي" کے راستہ سے ہٹ کر اعتقادی مسلک اور دینی طرز فکر اختیار کرلیا لیکن ضروریات دین میں سے کسی چیز کا انکار اور کوئی ایسا عقیدہ اختیار نہیں کیا جس کی وجہ سے اسلام اور امت کے دائرہ ہی سے خارج ہوگئے ہوں ان کے بارے میں جو فرمایا گیا "كُلُّهُمْ فِي النَّارِ" (یہ سب جہنم میں جائیں گے) اس کا مطلب یہ ہے کہ عقیدے کے فساد اور گمراہی کی وجہ سے یہ عذاب جہنم کے مستحق ہونگے اسی طرح "مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي" کے مسلک سے وابستگی رکھنے والے تہترویں فرقے کے جنتی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اعتقادی استقامت کی وجہ سے نجات اور جنت کا مستحق ہوگا۔ بہرحال حدیث میں جس تفرق (فرقوں میں تقسیم ہونے کا) ذکر فرمایا گیا ہے انکا اعمال کی نیکی بدی اور اچھائی برائی سے تعلق ہے فرقہ بندی کا تعلق عقائد و انکار سے ہوتا ہے اعمال صالحہ اور اعمال سیئہ کی وجہ سے ثواب یا عذاب کا مستحق ہونا بھی برحق ہے اس حدیث کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
Top