معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 1984
وَعَنْهُ قَالَ: «كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ بُرْدٌ نَجْرَانِيٌّ غَلِيظُ الحَاشِيَةِ»، فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَبَذَهُ بِرِدَائِهِ جَبْذَةً شَدِيدَةً، حَتَّى «نَظَرْتُ إِلَى صَفْحَةِ عَاتِقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَثَّرَتْ بِهَا حَاشِيَةُ البُرْدِ مِنْ شِدَّةِ جَبْذَتِهِ»، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مُرْ لِي مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي عِنْدَكَ، «فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ضَحِكَ، ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ» (رواه البخارى ومسلم)
آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لے جا رہے تھے، میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا، آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے تھے (چلتے چلتے) حضرت ﷺ کو ایک گنوار بدو نے پکڑ لیا اور آپ ﷺ کی چادر پکڑ کے اس زور سے کھینچا کہ آپ ﷺ اس بدو کے سینے سے آ لگے اور میں نے دیکھا کہ اس بدو کے زور سے چادر کھینچنے کی وجہ سے آپ ﷺ کی گردن مبارک کے ایک طرف نشان پڑ گیا۔ پھر اس گنوار بدو نے کہا کہ اے محمد تمہارے پاس جو اللہ کا مال ہے تم (اپنے آدمیوں کو) حکم دو کہ وہ اس میں سے مجھ کو دیں (حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس گنوار بدو کی طرف دیکھا (اور بجائے غصہ فرمانے کے) آپ ﷺ اس کی اس حرکت پر ہنسے اور اس کو کچھ دینے کا حکم دیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
نجران یمن کے علاقہ میں ایک شہر تھا جہاں خاص قسم کی چادریں بنتی تھیں، ان کو نجرانی چادر کہا جاتا تھا .... اس بدو نے جس "اللہ کے مال" (مال اللہ) کا سوال کیا تھا اس سے مراد بظاہر زکوٰۃ و صدقات وغیرہ کا وہ سرمایہ تھا جو بیت المال میں رہتا تھا جو آپ ﷺ مستحقین کو عطا فرماتے تھے ..... حدیث کا مضمون و مفہوم واضح ہے کسی توضیح و تشریح کا محتاج نہیں ..... ظاہر ہے کہ یہ بدو انتہائی درجہ کا اجڈ گنوار تھا، اس وقت اس میں کسی اصلاحی بات کے قبول کرنے کی صلاحیت اور استعداد بھی نہیں تھی، اس لئے آپ ﷺ نے اس کو سزا یا تنبیہ درکنار کوئی نصیحت کی بات بھی نہیں فرمائی، بلکہ اس کی اس انتہائی گستاخانہ حرکت کا جواب آپ ﷺ نے صرف ہنس کر دیا اور جس روپے پیسے کا وہ طالت تھا اس کو عنایت فرما دیا اور امت کو سبت دیا کہ اس درجہ کی بدتمیزی اور ایذا رسانی کے مواقع پر بھی نفس پر قابو رکھیں اور عفو و درگزر کا رویہ اختیار کر کے لوگوں کے دل جیتیں اور اپنے سے قریب کریں، پھر اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرما دے گا اور ان کی اصلاح بھی ہو جائے گی ..... بلا شبہ ارباب بصیرت کے نزدیک آپ ﷺ کی زندگی کے اس طرح کے واقعات بھی آپ ﷺ کے معجزات ہیں۔
Top