معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2011
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لأَحَدٍ عِنْدَنَا يَدٌ إِلاَّ وَقَدْ كَافَيْنَاهُ مَا خَلاَ أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا يَدًا يُكَافِئُهُ اللَّهُ بِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ، وَمَا نَفَعَنِي مَالُ أَحَدٍ قَطُّ مَا نَفَعَنِي مَالُ أَبِي بَكْرٍ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلاً، أَلاَ وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ. (رواه الترمذى)
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک موقع پر) ارشاد فرمایا کہ کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے ہمارے ساتھ حسن سلوک کیا ہو کچھ ہم کو دیا ہو اور ہم نے اس کی مکافات نہ کر دی ہو، سوائے ابو بکرؓ کے، انہو ں نے ہمارے ساتھ جو حسن سلوک کیا اس کی مکافات اللہ تعالیٰ ہی کرے گا قیامت کے دن۔ اور کسی شخص کا بھی مال کبھی اتنا میرے کام نہیں آیا جتنا ابو بکر کا مال کام آیا اور اگر میں (اپنے دوستوں میں سے) کسی کو خلیل (جانی دوست) بناتا تو ابو بکرؓ کو بناتا اور معلوم ہونا چاہئے کہ میں بس اللہ کا خلیل ہوں (اور میرا حقیقی دوست و محبوب بس اللہ ہے)۔ (جامع ترمذی)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے مختلف مواقع پر مختلف عنوانات سے حضرت ابو بکرؓ کی فضیلت بلکہ افضلیت اور امت میں ان کے امتیازی مقام کا ذکر خاص اہتمام سے فرمایا ہے، آپ ﷺ کے مرض وفات کے سلسلہ میں متعدد ایسی حدیثیں گزر چکی ہیں جن سے بغیر کسی شک و شبہ کے یقین کے ساتھ معلوم ہو جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے نزدیک آپ ﷺ کی امت کے افضل ترین فرد حضرت ابو بکرؓ تھے اور آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی قائم مقامی یعنی خلافت نبوت کے لئے وہی آپ ﷺ کی نظر میں متعین تھے۔ ان زبانی ارشادات کے علاوہ آپ ﷺ نے اپنے مرض وفات میں (جس کے بارے میں آپ ﷺ کو منجانب اللہ معلوم ہو چکا تھا کہ اسی مرض میں میری وفات مقدر ہو چکی ہے) اصرار و تاکید کے ساتھ حضرت ابو بکر کو اپنی جگہ امام نماز بنا کر اس طرف امت کو واضح رہنمائی بھی فرما دی تھی۔ حضور ﷺ کے مرض وفات کے سلسلہ کی ان حدیثوں کے علاوہ چند اور حدیثیں حضرت ابو بکر صدیقؓ کی فضیلت اور افضلیت کے بارے میں ذیل میں درج کی جا رہی ہین ان میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات بھی ہیں اور بعض اکابر صحابہ کی شہادتیں بھی۔ تشریح ..... آنحضرت ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی آپ کو ہدیہ پیش کرتا تو آپ اس کو قبول فرما لیتے اور اسی وقت یا بعد میں کسی وقت اسے اتنا ہی یا زیادہ کسی شکل میں عطا فرما کر مکافات فرما دیتے، زیر تشریح حدیث میں آپ نے فرمایا ہے کہ ابو بکرؓ کے سوا جس کسی نے بھی ہمارے ساتھ حسن سلوک کیا ہم نے دنیا ہی میں اس کی مکافات کر دی، لیکن ابو بکرؓ نے جو حسن سلوک کیا اس کی مکافات آخرت میں اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا، حضرت ابو بکرؓ کے نواسے حضرت عروہؓ کا بیان ہے کہ حضرت ابو بکرؓ نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے، وہ سب رسول اللہ ﷺ کی مرضی کے مطابق دین کی خدمت میں خرچ ہو گئے، سات ایسے غلاموں کو خرید کر آزاد کیا جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور ان کے کافر و مشرک مالک و آقا اسلام قبول کرنے ہی کے "جرم" میں ان کو ستاتے اور مظالم کے پہاڑ توڑتے تھے حضرت بلالؓ بھی انہی میں سے تھے ..... حضرت ابو بکرؓ نے حضور ﷺ سے عرض کر دیا تھا کہ میں اور میرا سارا مال گویا آپ کی ملک ہے جس طرح چاہیں استعمال فرما لیں، چنانچہ حضور ﷺ ایسا ہی کرتے تھے، آنحضرت ﷺ نے مرض وفات میں اپنے آخری خطاب میں بھی حضرت ابو بکرؓ کی اس خصوصیت اور امتیاز کا ذکر فرمایا تھا۔ حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت سے وہ خطاب صحیح بخاری و صحیح مسلم کے حوالہ سے ذکر کیا جا چکا ہے اور اس میں حضور ﷺ کے بعد ان کے خلیفہ ہونے کی بھی واضح رہنمائی ہے۔
Top