معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2097
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا غِرْتُ عَلَى أَحَدٍ مِنْ نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ، وَمَا رَأَيْتُهَا، وَلَكِنْ كَانَ يُكْثِرُ ذِكْرَهَا، وَرُبَّمَا ذَبَحَ الشَّاةَ ثُمَّ يُقَطِّعُهَا أَعْضَاءً، ثُمَّ يَبْعَثُهَا فِي صَدَائِقِ خَدِيجَةَ، فَرُبَّمَا قُلْتُ لَهُ: كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا امْرَأَةٌ إِلَّا خَدِيجَةُ، فَيَقُولُ «إِنَّهَا كَانَتْ، وَكَانَتْ، وَكَانَ لِي مِنْهَا وَلَدٌ» (رواه البخارى ومسلم)
فضائل اہل بیت نبوی ﷺ (ازواجِ مطہرات اور ذریت طیّبہ): فضائل ام المومنین حضرت خدیجہؓ
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی بیویوں میں سے کسی پر ایسا رشک نہیں آیا جیسا کہ خدیجہؓ پر آیا حالانکہ میں نے ان کو دیکھا نہیں، لیکن آپ ان کو بہت یاد کرتے، اور بکثرت ان کا ذکر فرماتے، کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ آپ ﷺ بکری ذبح فرماتے، پھر اس کے اعضاء الگ الگ ٹکڑے کرتے، پھر وہ ٹکڑے خدیجہؓ سے میل محبت رکھنے والیوں کے یہاں بھیجتے تو میں کس وقت کہہ دیتی دنیا میں بس خدیجہ ہی ایک عورت تھیں، اور آپ ﷺ فرماتے کہ وہ ایسی تھیں، ایسی تھیں اور ان سے میری اولاد ہوئی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو جن اخلاق حسنہ سے نوازا تھا ان میں ایک احسان شناسی کا وصف بھی تھا۔ حضرت خدیجہ نے آنحضرت ﷺ کے نکاح میں آنے کے بعد آپ ﷺ کی جو خدمتیں کیں اور دور نبوت کے آغاز میں جس طرح وہ آپ ﷺ کے لئے تقویت اور تسلی کا ذریعہ بنیں، اور پھر دین حق کی دعوت کے وقت جس طرح وہ شدائد و مصائب میں آپ ﷺ کی شریک حال رہیں، اور ان کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے جو خصوصیات ان کو عطا فرمائی تھیں (جن میں سے کچھ کا ذکر اوپر آ چکا ہے) ان کا حق تھا کہ آنحضرت ﷺ ان کو کبھی فراموش نہ کرتے اور احسان شناسی کے جذبہ کا تقاضا تھا کہ آپ ﷺ ان کا اور ان کی خدمات و احسانات کا دوسروں کے خاص کر اپنی ازواج مطہرات کے سامنے ذکر فرماتے یہی آپ ﷺ کا عمل تھا، یہاں تک کہ اس سلسلہ میں آپ ﷺ کا یہ بھی معمول تھا کہ کبھی کبھی آپ ﷺ بکری ذبح کرتے تھے اس کے گوشت کے پارچے حضرت خدیجہؓ سے میل محبت کا تعلق رکھنے والی خواتین کو ہدیہ کے طور پر بھیجتے، آپ ﷺ کا یہی وہ طرز عمل تھا، جس کی بنا پر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ مجھے آپ ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر ویسا رشک نہیں آیا جیسا کہ آپ ﷺ کی پہلی مرحومہ بیوی خدیجہؓ پر آتا تھا، ھالانکہ میں نے ان کو دیکھا بھی نہیں تھا (کیوں کہ ان کے پچپنے ہی میں وہ وفات پا گئیں تھیں) ..... اسی سلسلہ بیان میں حضرت صدیقہؓ نے کود ہی اپنی اس کمزوری کا ذکر فرمایا کہ میں ایسے وقت جب آپ ﷺ اپنی مرحومہ بیوی خدیجہؓ کی خوبیوں کا ذکر فرماتے تو کبھی کہہ دیتی کہ "دنیا میں بس خدیجہؓ ہی ایک عورت تھیں"۔ تو آپ ﷺ فرماتے کہ وہ ایسی تھیں ایسی تھیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ ان کی خدمات و احسانات اور خوبیوں کا ذکر فرماتے، اس سلسلہ میں آپ ﷺ ان کی اس خصوصیت کا بھی ذکر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کے ذریعہ مجھے اولاد عطا فرمائی۔ کیوں کہ ان کے علاوہ دس بیویوں میں سے کسی سے بھی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ یہاں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ حضرت ماریہ قبطیہؓ سے ایک صاحبزادے پیدا ہوئے تھے جن کا نام آپ نے ابراہیم رکھا تھا، وہ شیر خوارگی ہی کے ایام میں قریباً صرف ڈیڑھ سال کی عمر پا کر انتقال فرما گئے تھے لیکن حضرت ماریہؓ آپ ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے نہیں تھیں، بلکہ آپ ﷺ کی مملوکہ تھیں جن کو اسکندریہ کے صاحب حکومت مقوقس نے کچھ اور ہدایا کے ساتھ آپ ﷺ کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر بھیجا تھا، پھر وہ حضرت ابراہیم کی پیدائش کے بعد شریعت کے حکم کے مطابق "ام ولد" ہو گئی تا آنکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے ۵ سال بعد حضرت عمر ؓ کے دور حکومت میں وفات پائی۔ (ؓ وارضاہا) ام المومنین حضرت سودہ صدیقہ ؓ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے جب رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے قوم کو بت پرستی اور جاہلیت والی زندگی چھوڑ کر خدائے واحد کی پرستش اور اس کی فرمانبرداری والی زندگی کی دعوت کا کام شروع کیا، تو پوری قوم آپ کی دشمن بن کر کھڑی ہو گئی، لیکن چند ایسے سلیم الفطرت افراد بھی تھے، جن کے دلوں نے آپ کی دعوت حق کو ابتدائی دور ہی میں قبول کر لیا، ان میں ایک سودہ بنت زمعہ عامریہ بھی تھیں، ان کی شادی اپنے چچا زاد بھائی سکران سے ہوئی تھی، وہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی دعوت اسلام کی دشمنی میں عام مشرکین قریش کے ساتھ تھا، حضرت سودہؓ نے مصلحت اس میں سمجھی کہ وہ اپنے اسلام کو ظاہر نہ کریں۔ جس وقت وہ مناسب سمجھتیں تو اپنے شوہر سکران کے سامنے ایسی باتیں کرتیں جن سے ان کا دل بھی رسول اللہ ﷺ کی صداقت اور اسلام کی حقانیت کے بارے میں سوچنے لگے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کی توفیق سے ان کے شوہر سکران نے بھی کچھ مدت کے بعد اسلام قبول کر لیا اور پھر میاں بیوی دونوں نے اپنے اسلام و ایمان کا اعلانیہ اظہار بھی کر دیا، جس کے بعد ان دونوں پر بھی کفار قریش کی طرف سے ظلم و ستم کا سلسلہ شروع ہو گیا، جو بڑھتا ہی گیا ..... بالآخر مظالم سے تنگ آ کر رسول اللہ ﷺ کے مشورہ پر ان دونوں نے بھی بہت سے دوسرے مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں کی طرح ملک حبشہ کی طرف ہجرت کی ..... چند برس کے بعد ان کے شوہر سکران کا حبشہ ہی میں انتقال ہو گیا، تو یہ بیوہ ہو کر مکہ مکرمہ واپس آ گئیں اور اپنے والد کے پاس رہیں۔ نبوت کے دسویں سال جب ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ کی وفات ہوئی تو آپ ﷺ فطری طور پر ان کے مفارقت کی صدمہ سے سخت غمگین تھے، علاوہ اس کے ایک پریشان کن صورت ھال یہ پیدا ہو گئی کہ گھر میں صرف کم عمر چار بچیاں تھیں، جن کی دیکھ بھال کرنے والا اور خانہ داری کی دوسری ضرورتیں پوری کرنے والا کوئی نہ تھا ..... عثمان بن مظعون کی بیوی خولہ بنت حکیم نے اس صورت حال کو محسوس کر کے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ کو جلدی نکاح کر لینا چاہئے، آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری نگاہ میں کون ایسی خاتون ہیں، جن کو تم ان حالات میں مناسب سمجھتی ہو؟ انہوں نے سودہ بنت زمعہؓ کا نام لیا، جو بیوہ اور سن رسیدہ تھیں، آپ ﷺ نے ایمان میں ان کی سابقیت، پھر حبشہ کی طرف ہجرت اور سکران کی وفات کے بعد ان کی بیوی کے صدمہ کا لحاظ کرتے ہوئے ان سے نکاح کرنے کا ارادہ فرما لیا، اور خولہ سے فرمایا: تم خود ہی ان کو میرا پیغام پہنچاؤ ..... خولہ کا بیان ہے کہ میں سودہ کے پاس پہنچی اور ان کو مبارک باد دیتے ہوئے آپ ﷺ نے پیغام پہنچایا، انہوں نے کہا کہ "میں دل و جان سے راضی ہوں" التبہ بہتر یہ ہے کہ تم میرے والد زمعہ سے بھی اس سلسلہ میں بات کرو! میں اسی وقت ان کے پاس بھی گئی اور پیام پہنچایا، انہوں نے بھی اپنی رضامندی ظاہر کی، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ تم خود سودہ سے بھی دریافت کرو، میں نے بتایا کہ میں ان سے بات کر چکی ہوں، وہ بڑی خوش دلی کے ساتھ رضامند ہیں، بالآخر زمعہ نے خولہ بنت حکیم ہی کے ذریعہ رسول اللہ ﷺ کو بلوایا، اور آپ کے ساتھ اپنی بیٹی سودہ کا نکاح کر دیا، اس وقت حضرت سودہؓ کی عمر قریباً پچاس سال تھی ..... نکاح کے بعد آنحضرت ﷺ کے ہجرت فرمانے تک تین سال منکوحہ رفیقہ حیات کی حیثیت سے تنہا وہی آپ کے ساتھ رہیں ..... ان کے اوصاف و احوال میں ان کی سرچشمی، استغناء دنیا سے بےرغبتی، اور فیاضی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ ان کے مذکورہ بالا امتیازات کی وجہ سے ان کے ساتھ احترام کا خاص رویہ رکھتے تھے ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے درہموں سے بھری ہوئی ایک تھیلی، ان کی خدمت میں بھیجی، لانے والے سے پوچھا: کیا تھیلی میں کھجوریں ہیں، انہوں نے کہا نہیں! اس میں درہم ہیں، آپؓ نے فرمایا: کھجوریں ہوتیں تو کھانے کے کام آ جاتیں، یہ کہہ کر تھیلی لے لی، اور اس میں بھرے ہوئے سب درہم ضرورت مندوں پر تقسیم فرما دئیے۔ حضرت عمرؓ کے اخیر دور خلافت ۲۲ھ مین قریباً ۵۷ سال کی عمر میں وفات پائی۔ ؓ وارضاہا۔
Top