معارف الحدیث - کتاب المناقب والفضائل - حدیث نمبر 2102
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ مَا أَشْكَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلاَّ وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا. (رواه والترمذى)
علمی فضل و کمال
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے فرمایا کہ جب کبھی ہم لوگوں یعنی رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کو کسی بات اور کسی مسئلہ میں اشتباہ ہوا، تو ہم نے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے پوچھا تو ان کے پاس اس کے بارے میں علم پایا۔ (جامع ترمذی)

تشریح
معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ قدیم الاسلام ہیں، ان چند صحابہ کرامؓ میں ہیں جو علم اور تفقہ میں ممتاز تھے، یہ دراصل علاقہ یمن کے رہنے والے تھے، دعوت ایمان و اسلام کے ابتدائی دور ہی میں ان کو اس کی خبر پہنچی تو یہ خود مکہ معظمہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے معمول کے مطابق ان کے سامنے بھی اسلام کی دعوت پیش کی تو ان کے قلب سلیم نے بغیر تردد و توقف کے اسلام قبول کر لیا، اور مکہ معظمہ ہی میں رہنے کا فیصلہ کر لیا، اور پھر جب مکہ کے کفار و مشرکین نے اسلام قبول کرنے والوں کو اپنے مظالم کا نشانہ بنایا، اور بات ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئی تو حضور ﷺ ہی کے مشورہ سے ان ستم رسیدہ مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کا فیصلہ کیا، اور حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کی قیادت میں صحابہ کرامؓ کی جو جماعت حبشہ کے لئے روانہ ہوئی ان ہی میں ابو موسیٰ اشعریؓ بھی تھے ..... چند برسوں تک یہ حضرات حبشہ ہی میں مقیم رہے، رسول اللہ ﷺ کے مدینہ طیبہ ہجرت فرمانے کے بعد یہ حضرات مدینہ طیبہ آ گئے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو اللہ تعالیٰ نے خاص درجہ کی علمی صلاحیت عطا فرمائی تھی وہ حضور ﷺ کے دور حیات ہی میں ان چند صحابہؓ میں شمار ہوتے تھے جن کی طرف عام مسلمان دینی معلومات حاصل کرنے کے لئے رجوع کرتے تھے، اصطلاحی الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ "فقہاء صحابہ میں سے تھے ان کا یہ بیان بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ ہم کو یعنی رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کرام کو حضور ﷺ کے بعد کسی مسئلہ میں مشکل پیش آتی تو وہ حضرت عائشہؓ ہی کی طرف رجوع کرتے تھے اور جو مسئلہ ان کے سامنے پیش کیا گیا تو ہم نے دیکھا کہ اس کے بارے میں ان کے پاس علم ہے ..... یعنی وہ مسئلہ حل فرما دیتیں یا تو ان کے پاس اس بارے میں حضور ﷺ کا ارشاد ہوتا یا اپنی اجتہادی صلاحیت سے مسئلہ حل فرما دیتیں .... اس سلسلہ میں چند اکابر تابعین کی یہ شہادتیں بھی ذیل میں پیش کی جاتی ہیں۔" حضرت عروہ ابن زبیرؓ جو حضرت عائشہؓ کے حقیقی بھانجے ہیں، اور حضرت صدیقہؓ کی روایتوں کی بڑی تعداد کے وہی راوی ہیں، حاکم اور طبرانی نے ان کا یہ بیان حضرت صدیقہؓ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ: «مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ أَعْلَمَ بِالْقُرْآنِ وَلَا بِفَرِيضَةٍ وَلَا بِحَرَامٍ وَلَا بِحَلَالٍ وَلَا بِفِقْهٍ وَلَا بِشِعْرٍ وَلَا بِطِبٍّ وَلَا بِحَدِيثِ الْعَرَبِ وَلَا بِنَسَبٍ مِنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا» (1) ترجمہ: میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو اللہ کی کتاب قرآن پاک اور فرائض کے بارے میں اور حرام و حلال اور فقہ کے بارے م یں اور شعر اور طب کے بارے میں اور عربوں کے واقعات اور تاریخ کے بارے میں اور انساب کے بارے میں (ہماری خالہ جان) عائشہؓ سے زیادہ علم رکھتا ہو۔ اور حاکم اور طبرانی ہی نے ایک دوسرے تابعی مسروق سے روایت کیا ہے۔ فرمایا: وَاللهِ لَقَدْ رَأَيْتُ الْأَكَابِرَ مِنَ الصَّحَابَةِ وَفِىْ لَفْظِ مَشِيْخَةِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَكَابِرَ يَسْأَلُونَ عَائِشَةَ عَنِ الْفَرَائِضِ. (2) ترجمہ: میں نے اکابر صحابہؓ کو دیکھا ہے فرائض کے بارے میں حضرت عائشہؓ سے دریافت کرتے تھے۔ اور حاکم ہی نے ایک تیسرے بزرگ تابعی عطاءابن ابی رباح کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ: «كَانَتْ عَائِشَةُ، أَفْقَهَ النَّاسِ وَأَعْلَمَ النَّاسِ وَأَحْسَنَ النَّاسِ رَأْيًا فِي الْعَامَّةِ» (3) ترجمہ: حضرت عائشہؓ بڑی فقیہہ تھیں اور بڑی عالم اور عام لوگوں کی رائے ان کے بارے میں بہت اچھی تھی۔ کمالِ خطابت مندرجہ بالا علمی کمالات کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ان کو خطابت میں بھی کمال عطا فرمایا تھا، طبرانی نے حضرت معاویہؓ کا بیان نقل کیا ہے، فرمایا: قَالَ مُعَاوِيَةَ: " وَاللهِ مَا رَأَيْتُ خَطِيبًا قَطُّ أَبْلَغَ وَلَا أَفْصَحَ وَلَا أَفْطَنَ مِنْ عَائِشَةَ. (رواه الطبرانى) ترجمہ: خدا کی قسم میں نے کوئی خطیب نہیں دیکھا جو فصاحت و بلاغت اور فطانت میں حضرت عائشہؓ سے فائق ہو۔ یہی وہ خداداد کمالات تھے جن کی وجہ سے وہ رسول اللہ ﷺ کی تمام ازواج مطہرات میں آپ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔ (ؓ وارضاھا)
Top