معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 141
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ، لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ ، لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَلَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا » (رواه البخارى)
اگر عالم غیب ہم پر منکشف ہو جائے تو ہمارا کیا حال ہو
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، سیدنا ابو القاسم ﷺ نے فرمایا: قسم اُس ذات، پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر (اللہ کے قہر و جلال اور قیامت و آخرت کے لرزہ خیز ہولناک احوال کے متعلق) تمہیں وہ سب معلوم ہو جائے، جو مجھے معلوم ہے، تو تہمارا ہنسنا بہت کم ہو جائے، اور رونا بہت بڑھ جائے۔ (بخاری)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شانِ بے نیازی، اور اس کے قہر و جلال، اور قیامت و آخرت کے ہولناک لرزہ خیز احوال کے متعلق جو کچھ مجھے معلوم ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مجھ پر منکشف کر دیا ہے، اگر تم کو بھی اس کا پورا علم ہو جائے، اور تمہاری آنکھوں کو بھی وہ سب نظر آنے لگے جو میں دیکھتا ہوں، اور تمہارے کان بھی وہ سب کچھ سننے لگیں جو میں سنتا ہوں، تو تمہارا چین و سکون ختم ہو جائے، تم بہت کم ہنسو اور بہت زیادہ رؤں۔ اس کی مزید تفصیل حضرت ابوذر غفاریؓ کی اگلی حدیث سے معلوم ہوگی۔ حدیث کی کتابوں میں جس طرح کتاب الایمان، کتاب الصلوٰۃ، کتاب الزکوٰۃ، کتاب النکاح، کتاب البیوع وغیرہ عنوانات ہوتے ہیں، جن کے تحت ان ابواب کی حدیثیں درج کی جاتی ہیں، اسی طرح ایک عنوان " کتاب الرقاق " کا ہوتا ہے، جس کے ذیل میں وہ حدیثیں درج کی جاتی ہیں جن سے دل میں رقّت اور گداز کی کیفیت پیدا ہو، دنیا سے وابستگی کم ہو، اور آخرت کی فکر بڑھے، اور آدمی اللہ تعالیٰ کی رضا اور اخروی فلاح کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائے، اس کے علاوہ اسی عنوان کے تحت رسول اللہ ﷺ کے مؤثر خطبات و نصائح اور مواعظ بھی درج کئے جاتے ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ حدیث کے ذخیرے میں سب سے زیادہ مؤثر اور زندگی کے رُخ کو بدلنے کی سب سے زیادہ طاقت رکھنے والا حصہ یہی ہوتا ہے، جو کُتبِ حدیث میں " کتاب الرقاق " کے زیرِ عنوان درج ہوتا ہے، اس لئے اس کی خاص اہمیت ہے، اور کہا جا سکتا ہے کہ حقیقی اسلامی تصوف کی یہی اساس و بنیا ہے۔ ہم اس سلسلہ کو اُن حدیثوں سے شروع کرتے ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ نے خدا کا خوف و خشیت اور آخرت کی فکر دلوں میں پیدا کرنے کی کوشش فرمائی ہے، یا کسی عنوان سے اس کی فضیلت اور اہمیت بیان فرمائی ہے۔ دعا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات کے جو اثرات اُن خوش نصیب اہلِ ایمان کے قلوب پر پڑتے تھے جنہوں نے سب سے پہلے خود حضور ﷺ کی زبانِ مبارک سے یہ ارشادات سُنے تھے، اللہ تعالیٰ ان کا کوئی ذرہ ہم کو بھی نصیب فرمائے۔ خدا کا خوف اور فکر آخرت ایمان کے بعد انسان کی زندگی کو سنوارنے اور فلاح کے مقام تک اُس کو پہنچانے میں چونکہ سب سے بڑا دخل اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت اور آخرت کی فکر کو ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انی امت میں ان دو چیزوں کے پیدا کرنے کی خاص کوشش فرمائی، کبھی اِس خوف و فکر کے فوائد اور فضائل بیان فرماتے، اور کبھی اللہ تعالیٰ کے قہر و جلال اور آخرت کے ان سخت احوال کو یاد دلاتے، جن کی یاد سے دلوں میں یہ دونوں کیفیتیں پیدا ہوتی ہیں۔ آپ کے مشہور صحابی حضرت حنظلہ ابن الربیع کی حدیث جو چند صفحات کے بعد آپ پڑھیں گے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مجالس کا خاص موضوع گویا یہی تھا، اور صحابہ کرام جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، اور آخرت اور دوزخ و جنت کے متعلق آپ کے ارشادات سنتے تھے، تو اُن کا حال یہ ہو جاتا تھا کہ دوزخ و جنت گویا اُن کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ حدیث کے صرف موجودہ ذخیرے ہی سے اگر ایسی جمع کی جائیں، جن کا مقصد خدا کا خوف اور آخرت کی فکر پیدا کرنا ہے، تو بلا شبہ ایک پوری کتاب صرف ان ہی حدیثوں سے تیار ہو سکتی ہے۔ یہاں صرف چند ہی حدیثیں اس سلسلہ کی درج کی جاتی ہیں۔
Top