معارف الحدیث - کتاب الرقاق - حدیث نمبر 175
عَنْ عَمْروٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ يَوْمًا فَقَالَ فِي خُطْبَتِهِ : " أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا عَرَضٌ حَاضِرٌ يَأْكُلُ مِنْهَا الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ ، أَلَا وَإِنَّ الْآخِرَةَ أَجَلٌ صَادِقٌ يَقْضِي فِيهَا مَلِكٌ قَادِرٌ ، أَلَا وَإِنَّ الْخَيْرَ كُلَّهُ بِحَذَافِيرِهِ فِي الْجَنَّةِ ، أَلَا وَإِنَّ الشَّرَّ كُلَّهُ بِحَذَافِيرِهِ فِي النَّارِ ، أَلَا فَاعْمَلُوا وَأَنْتُمْ مِنَ اللَّهِ عَلَى حَذَرٍ ، وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مَعْرُوضُونَ عَلَى أَعْمَالِكُمْ ، {فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ، وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ} (رواه الشافعى)
دنیا اور آخرت پر رسول اللہ ﷺ کا ایک خطبہ
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن خطبہ دیا، اور اپنے اس خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ: سُن لو، اور یاد رکھو کہ دنیا ایک عارضی اور وقتی سودا ہے، جو فی الوقت حاضر اور نقد ہے (اور اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، اسی لئے) اس میں ہر نیک و بد کا حصہ ہے، اور سب اس سے کھاتے ہیں، اور یقین کرو کہ آخرت مقرر وقت پر آنے والی ایک سچی اٹل حقیقت ہے، اور سب کچھ قدرت رکھنے والا شہنشاہ اسی میں (لوگوں کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا) فیصلہ کرے گا، یاد رکھو کہ ساری خیر اور خوشگواری اور اس کی تمام قسمیں جنت میں ہیں، اور سارا شر اور دکھ اس کی تمام قسمیں دوزخ میں ہیں۔ پس خبردار، خبردار (جو کچھ کرو) اللہ سے ڈرتے ہوئے کرو (اور ہر عمل کے وقت آخرت کے انجام کو پیش نظر رکھو) اور یقین کرو کہ تم اپنے اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور میں پیش کئے جاؤ گے، پس جس شخص نے ذرہ برابر کوئی نیکی کی ہوگی، وہ اس کو بھی دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی، وہ اس کو بھی پا لے گا۔ (مسند امام شافعی)

تشریح
انسان کی سب سے بڑی بدبختی اور سیکڑوں قسم کی بدکاریوں کی جڑ بنیاد یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکام اور آخرت کے انجام سے بے فکر اور بے پروا ہو کر زندگی گذارے، اور اپنی نفسانی خواہشات اور اس دنیا کی فانی لذتوں کو اپنا مقصد اور مطمح نظر بنا لے اور یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ آنکھوں کے سامنے ہے، اور خدا اور آخرت آنکھوں سے اوجھل ہیں، اس لئے انسانوں کو اس بربادی سے بچانے کا راستہ یہی ہے کہ ان کے سامنے دنیا کی بے حقیقتی اور بے قیمتی کو اور آخرت کی اہمیت اور برتری کو قوت کے ساتھ پیش کیا جائے، اور قیامت میں خدا کے سامنے پیشی اور اعمال کی جزا و سزا کا اور جنت و دوزخ کے ثواب و عذاب کا یقین اُن کے دلوں میں اتارنے کی کوشش کی جائے۔ حضور ﷺ کے اس خطبہ کا حاصل اور موضوع یہی ہے، اور جیسا کہ عرض کیا گیا، آپ کے اکثر خطبات اور مواعظ میں یہی بنیادی مضمون ہوتا تھا۔ تنبیہ۔۔۔ یہ بات بڑی خطرناک اور بہت تشویشناک ہے کہ دینی دعوت اور دینی وعظ و نصیحت میں دنیا کی بے ثباتی اور بے حقیقتی اور آخرت کی اہمیت کا بیان اور جنت و دوزخ کا تذکرہ جس طرح اور جس ایمان و یقین اور جس قوت کے ساتھ ہونا چاہئے ہمارے اس زمانہ میں اس کا رواج بہت کم ہوگیا ہے، گویا نہیں رہا ہے، اور دین کی تبلیغ و دعوت میں بھی اسی طرح کی باتیں کرنے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے جس قسم کی باتیں مادی تحریکوں اور دنیوی نظاموں کی دعوت و تبلیغ میں کی جاتی ہیں۔
Top