معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 285
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَارَسُولَ اللهِ مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ : « وَمَاذَا أَعْدَدْتَ لَهَا » . قَالَ مَا اَعْدَدْتُ لَهَا ، إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ قَالَ : « أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ قَالَ اَنَسٌ فَمَا رَاَيْتُ الْمُسْلِمِيْنَ فَرِحُوْا بِشَيْئٍ بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ فَرِحَهُمْ بِهَا » . (رو اه البخارى ومسلم)
محبت ذریعہ قرب و معیت
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ حضرت! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا: وائے برحال تو (تو قیامت کا وقت اور اس کے آنے کی خاص گھڑی دریافت کرنا چاہتا ہے، بتلا) تو نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ اُس نے عرض کیا، میں نے اس کے لیے کوئی خاص تیاری تو نہیں کی (جو آپ کے سامنے ذکر کرنے کے لائق اور بھروسہ کے قابل ہو) البتہ (توفیقِ الہٰی سے مجھے یہ ضرور نصیب ہے کہ) مجھے محبت ہے اللہ سے اور اس کے رسول سے۔ آپ نے فرمایا: تجھ کو جس سے محبت ہے تو ان ہی کے ساتھ ہے اور تجھ کو اُن کی معیت نصیب ہوگی۔ حدیث کے راوی حضرت انسؓ اس حدیث کو بیان فرمانے کے بعد فرماتے ہیں کہ: میں نے نہیں دیکھا مسلمانوں کو (یعنی حضور ﷺ کے صحابہ کو) کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ان کو کسی چیز سے اتنی خوشی ہوئی ہو جتنی کہ حضور ﷺ کی اس بشارت سے ہوئی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اسی حدیث کی ایک روایت میں حضرت انس ؓ کا آخری فقرہ اس طرح بھی نقل کیا گیا ہے۔ فَمَا فَرِحْنَا بِشَيْءٍ، فَرَحَنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ » « فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ بِحُبِّي إِيَّاهُمْ، وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ أَعْمَالِهِمْ » ہم لوگوں کو (یعنی حضور ﷺ کے صحابہ کو) کبھی کسی بات سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی کہ آپ کے اس ارشاد سے ہوئی کہ « أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ » (تم جس سے محبت کرتے ہو اُسی کے ساتھ ہو) پس میں بحمد اللہ محبت رکھتا ہوں رسول اللہ ﷺ سے اور ابو بکرؓ اور عمرؓ سے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اپنی اس محبت ہی کی وجہ سے مجھے ان کا ساتھ نصیب ہو گا، اگرچہ میرے اعمال اُن حضرات کے سے نہیں ہیں۔ ناظرین کو ان حدیثوں کے متعلق دو باتیں خاص طور سے سمجھ لینی چاہئیں: محبت کی وجہ سے معیت کا مطلب اول یہ کہ ساتھ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محبت کی وجہ سے محب و محبوب کا درجہ اور مرتبہ بالکل ایک ہو جائے گا، اور دونوں کے ساتھ بالکل یکساں معاملہ ہو گا، بلکہ یہ ساتھ ہونا اپنے اپنے حال اور اپنے اپنے درجہ کے لحاظ سے ایسا ہی ہو گا جیسا کہ دنیا میں بھی خادم اپنے مخدوموں کے ساتھ اور تابع اپنے متبوعوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اور بلا شبہ یہ بھی بہت بڑا شرف اور بہت بڑی نعمت ہے۔ محبت کے لیے اطاعت لازم دوسری بات یہ ہے کہ محبت کے لئے اطاعت لازم ہے، یہ ناممکن ہے کہ کسی کو اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہو، اور اس کی زندگی بغاوت اور معصیت کی ہو۔ پس جو لوگ آزادی اور بے فکری کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں، وہ اگر اللہ و رسول کی محبت کا دعویٰ کریں تو جھوٹے ہیں، اور اگر واقعہ میں وہ خود بھی اپنے کو اہل محبت میں سے سمجھیں تو بڑے فریب میں مبتلا ہیں۔ حضرت رابعہ نے ایسے ہی مدعیان محبت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے، اور بالکل صحیح فرمایا ہے: تَعْصِي الْإِلَهَ وَأَنْتَ تُظْهِرُ حُبَّهُ . . . عَارٌ عَلَيْكَ إِذَا فَعَلْتَ شَنِيعُ لَوْ كَانَ حُبُّكَ صَادِقًا لَأَطَعْتَهُ . . . إِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ أَحَبَّ مُطِيعُ (یعنی اے محبت کے جھوٹے مدعی! تو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے، عقل و قیاس کے لحاظ سے یہ بات بہت ہی عجیب ہے، اگر تو دعویٰ محبت میں سچا ہوتا، تو اس کی فرمانبرداری کرتا، کیوں کہ ہر محب اپنے محبوب کی بات دل و جان سے مانا کرتا ہے) بہر حال اللہ و رسول کی محبت کے لئے ان کی اطاعت لازم ہے، بلکہ حق یہ ہے کہ کامل اطاعت محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ ع عاشقی چیست بگو بندہ جاناں بودن اور اللہ و رسول کی اطاعت کرنے والوں کو انبیاء و صدیقین اور شہداء و صالحین کی معیت و رفاقت کی بشارت خود قرآن مجید میں بھی دی گئی ہے۔ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا (النساء 69: 4) پس اس آیت اور مندرجہ بالا احادیث کے مضمون میں گویا تعبیر اور عنوان ہی کا فرق ہے۔ یہ بات حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت کردہ اس حدیث سے اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ جس کو حافظ ابن کثیر نے سورہ نساء کی اس آیت کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے اپنی تفسیر میں ابن مردویہ اور طبرانی کی سند سے نقل کیا ہے۔۔۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ: ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے اپنی بیوی، اپنی اولاد، اور اپنی جان سے بھی زیادہ حضور سے محبت ہے، اور میرا حال یہ ہے کہ میں اپنے گھر پر ہوتا ہوں اور حضور مجھے یاد آجاتے ہیں تو اس وقت تک مجھے صبر اور قرار نہیں آتا نہیں آتا جب تک حاضر خدمت ہو کر ایک نظر دیکھ نہ لوں اور جب میں اپنے مرنے کا اور حضور کی وفات کا خیال کرتا ہوں تو میری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ وفات کے بعد حضور تو جنت میں پہنچ کر انبیاء علیہم السلام کے بلند مقام پر پہنچا دئیے جائیں گے اور میں اگر اللہ کی رحمت سے جنت میں بھی گیا تو میری رسائی اس عالی مقام تک تو نہ ہو سکے گی، اس لئے آخرت میں حضور ﷺ کے دیدار سے بظاہر محرومی ہی رہے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے اُس شخص کی اس بات کا کوئی جواب اپنی طرف سے نہیں دیا، یہاں تک کہ سورہ نساء کی یہ آیت نازل ہوئی: وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا (النساء ع 7) اور جو لوگ فرمانبرداری کریں اللہ کی اور اس کے رسول کی، پس وہ اللہ کے ان خاص مقرب بندوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ کا خاص انعام ہے یعنی انبیاء صدیقین، شہداء اور صالحین، اور یہ سب بڑے ہی اچھے رفیق ہوں گے۔ گویا اس آیت نے رسول اللہ ﷺ کے اس محبِ صادق کو اور دوسرے تمام اہلِ محبت کو خوش خبری سنائی کہ جب تم کو سچی محبت ہے تو تم اللہ و رسول کی فرمانبرداری ضرور کرو گے، اور پھر تم کو جنت میں اللہ کے خاص مقرر بندوں کی معیت اور رفاقت بھی نصیب ہوگی۔ چونکہ محبت کے بارے میں بہت سے لوگوں کو غلط فہمی ہوتی ہے اور وہ ناواقفی اور کم غوری کی وجہ سے محبت و اطاعت کے باہمی لزوم کو پیشِ نظر نہیں رکھتے، اس لئے اس موقع پر تھوڑی سی تفصیل ضروری سمجھی گئی اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا حُبَّكَ وَحُبَّ رَسُوْلِكَ وَحُبَّ مَنْ يَنْفَعُنَا حُبُّهُ عِنْدَكَ .۔ . (اے اللہ! ہم کو اپنی اور اپنے رسول کی محبت عطا فرما، اورجن بندوں کی محبت تیرے نزدیک ہمارے لئے نفع بخش ہو، اُن سب کی محبت ہم کو عطا فرما)۔
Top