معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 313
عَنْ عَائِشَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : أَنَّ يَهُودَ أَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا : السَّامُ عَلَيْكُمْ ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ : عَلَيْكُمْ ، وَلَعَنَكُمُ اللَّهُ ، وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ . قَالَ : « مَهْلًا يَا عَائِشَةُ ، عَلَيْكِ بِالرِّفْقِ ، وَإِيَّاكِ وَالعُنْفَ وَالفُحْشَ » (رواه البخارى)
خوش کلامی اور بد زبانی
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ کچھ یہودی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور انہوں نے (نفس کی خباثت، اور شرارت سے السلام علیکم کے بجائے) کہا " السَّامُ عَلَيْكُمْ " (جو دراصل ایک گالی ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ تم کو موت آئے) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے (ان کی اس گستاخی کی سُن لیا اور سمجھ لیا اور) جواب میں فرمایا کہ تم ہی کو آئے، اور تم پر خدا کی لعنت اور اس کا غضب ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے عائشہ (ایسی سختی نہیں!) زبان کو روکو، نرمی کا رویہ اختیار کرو اور سختی اور بد زبانی سے اپنے کو بچاؤ۔ (صحیح بخاری)

تشریح
خوش کلامی اور بد زبانی انسان کی اخلاقی زندگی کے جن پہلوؤں سے اس کے ابنائے جنس کا سب سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے، اور جن کے اثرات اور نتائج بھی بہت دور رس ہوتے ہیں، ان میں سے اس کی زبان کی شیرینی یا تلخی اور نرمی یا سختی بھی ہے، اسی لئے رسول اللہ ﷺ اپنے متبعین و متعلقین کو شیریں گفتاری اور خوش کلامی کی بڑی تاکید فرماتے، اور بدزبانی اور سخت کلامی سے شدت کے ساتھ منع فرماتے تھے، یہاں تک کہ بُری بات کے جواب میں بھی بری بات کہنے کو آپ پسند نہیں فرماتے تھے، ذیل کی چند حدیثیں پڑھئے: تشریح۔۔۔ گویا آپ نے ان یہودیوں کی ایسی سخت گستاخی کے جواب میں بھی سختی کو پسند نہیں فرمایا، اور نرمی ہی کو اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی۔
Top