معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 332
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : « أَتَدْرُونَ مَا الْغِيبَةُ؟ » قَالُوا : اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، قَالَ : « ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ » قِيلَ أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ؟ قَالَ : « إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ ، فَقَدِ اغْتَبْتَهُ ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ مَا تَقُوْلُ فَقَدْ بَهَتَّهُ » (رواه مسلم)
غیبت اور بہتان
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کس کو کہتے ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا: تمہارا اپنے کسی بھائی کو اس طرح ذکر کرنا جس سے اس کو ناگواری ہو (بس یہی غیبت ہے) کسی نے عرض کیا کہ حضرت! اگر میں اپنے بھائی کی کوئی ایسی برائی ذکر کروں جو واقعۃً اس میں ہو (تو کیا یہ غیبت ہے؟) آپ نے ارشاد فرمایا: غیبت جب ہی ہوگی جب کہ وہ بُرائی اس میں موجود ہو، اور اگر اس میں وہ برائی اور عیب موجود ہی نہیں ہے (جو تم نے اس کی نسبت کر کے ذکر کیا) تو پھر تو یہ بہتان ہوا (اور یہ غیبت سے بھی زیادہ سخت اور سنگین ہے)۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث سے غیبت کی حقیقت اور غیبت اور بہتان کا فرق واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے، اوریہ بھی کہ بہتان غیبت سے زیادہ سنگین قسم کا جرم ہے ف۔۔۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رکھنی چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خیر خواہی یا کسی مضرت اور مفسدہ کے انسداد کے لیے کسی شخص یا گروہ کی واقعی بُرائی دوسروں کے سامنے بیان کرنا ضروری ہو جائے، یا اس کے علاوہ ایسے ہی کسی شرعی، اخلاقی یا تمدنی مقصد کا حاصل ہونا اس پر موقوف ہو، تو پھر اس شخص یا گروہ کی بُرائی کا بیان کرنا اس غیبت میں داخل نہ ہو گا جو شرعاً حرام اور گناہ کبیرہ ہے جو شرعاً حرام اور گناہ کبیرہ ہے بلکہ بعض حالتوں میں تو یہ کارِ ثواب ہو گا۔ چنانچہ حاکم کے سامنے ظالم کے خلاف گواہی دینا یا کسی پیشہ ور دھوکے باز کی حالت سے لوگوں کو باخبر کرنا، تا کہ وہ اس کے دھوکے میں نہ آئیں، اور حضرات محدثین کا غیر ثقہ اور غیر عادل راویوں پر جرح کرنا، اور دین و شریعت کے محافظ علماء حق کا اہل باطل کی غلطیوں پر لوگوں کو مطلع کرنا یہ سب اسی قبیل سے ہے۔
Top