معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 610
عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ : قَالَ لَنَا اِبْنُ مَسْعُودٍ : أَلاَ أُصَلِّي بِكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى ، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ. (رواه الترمذى وابوداؤد والنسائى)
رفع یدین
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے خاص شاگرد علقمہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ نے ایک دفعہ ہم سے کہا کہ میں تمہیں رسول اللہ ﷺ والی نماز پڑھاؤں! یہ کہہ کر انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، اس نماز میں انہوں نے بس پہلی ہی دفعہ (تکبیر تحریمہ کے ساتھ) رفع یدین کیا، اس کے سوا رفع یدین بالکل نہیں کیا۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی)

تشریح
حضرت ابن مسعود ؓ رسول اللہ ﷺ کے ان ممتاز اور جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ کی ہدایت تھی کہ وہ نماز میں پہلی صف میں رسول اللہ ﷺ کے قریب کھڑے ہوں، انہوں نے اپنے شاگردوں کو دکھانے اور سکھانے کے لئے اہتمام کے ساتھ رسول اللہ ﷺ والی نماز پڑھائی، اور اس میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی موقع پر بھی رفع یدین نہیں کیا۔ حضرت ابن مسعودؓ کی اس حدیث کی بناء پر یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت ابن عمرؓ وغیرہ نے رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا جو ذکر کیا ہے وہ بھی رسول اللہ ﷺ کا دائمی یا اکثری معمول نہ تھا، اگر ایسا ہوتا تو حضرت ابن مسعودؓ جو آپ ﷺ کے قریب صف اول میں کھڑے ہونے والوں میں تھے اس سے یقیناً واقف ہوتے اور تعلیم کے اس موقع پر رفع یدین ہرگز ترک نہ کرتے۔ ان سب حدیثوں کو سامنے رکھ کر ہر منصف صاحب علم اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ رسول اللہ ﷺ کا معمول نماز میں رفع یدین کا بھی رہا ہے اور ترک رفع یدین کا بھی۔ یعنی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ ﷺ پوری نماز میں سوائے تکبیر تحریمہ کے کسی موقع پر بھی رفع یدین نہیں کرتے تھے ایسا بھی ہوتا تھا کہ تحریمہ کے علاوہ صرف رکوع میں جاتے وقت اور اس سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے، اور شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ ﷺ سجدے میں جاتے وقت اور اس سے اٹھتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے۔ حضرت ابن مسعودؓ جیسے صحابہ نے آپ ﷺ کی نماز کے مسلسل مطالعہ اور مشاہدے سے یہ سمجھا کہ نماز میں اصل ترک رفع یدین ہے، اور حضرت ابن عمرؓ جیسے بہت سے صحابہ نے یہ سمجھا کہ اصل رفع یدین ہے۔ پھر رائے اور فکر کا یہی اختلاف تابعین اور بعد کے اہل علم میں بھی رہا۔ امام ترمذیؒ نے حضرت عبداللہ ابن عمرؓ والی مندرجہ بالا حدیث سند کے ساتھ نقل کرنے کے بعد اور حسب عادت یہ بتانے کے بعد کہ فلاں دیگر صحابہ کرام سے بھی رفع یدین کی احادیث روایت کی گئی ہیں لکھا ہے کہ: " رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ مثلاً حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت جابرؓ، حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت انسؓ وغیرہ اسی کے قائل ہیں یعنی انہوں نے رفع یدین کو اختیار کیا ہے، اور اسی طرح تابعین اور بعد کے ائمہ میں فلاں اور فلاں حضرات اسی کے قائل ہیں "۔ اس کے بعد ترک رفع یدین کے بارے میں حضرت ابن مسعود ؓ کی مندرجہ بالا حدیث نقل کرنے کے بعد اور اسی مضمون کی براء عازبؓ کی ایک دوسری حدیث کا حوالہ دینے کے بعد امام ترمذیؒ نے لکھا ہے کہ: " متعدد صحابہؓ اسی کے قائل ہیں اور انہوں نے ترک رفع یدین کو اختیار کیا ہے، اور اسی طرح تابعین اور بعد کے ائمہ میں سے فلاں فلاں حضرات نے اس کو اختیار کیا ہے "۔ الغرض آمین بالجہر اور آمین بالسر کی طرح رفع یدین اور ترک رفع یدین بلا شبہ دونوں عمل رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں۔ اور صحابہ کرامؓ کے درمیان ترجیح و اختیار میں اختلاف اسی وجہ سے ہوا ہے کہ ان میں سے بعض نے اپنے غور و فکر، اپنے دینی وجدان اور ادراک اور رسول اللہ ﷺ کے معمولات کے مطالعہ و تجزیہ کی بناء پر یہ سمجھا کہ نماز میں اصل ترک رفع یدین ہے، اور رفع یدین جب ہوا ہے وقتی اور عارضی طور پر ہوا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ جیسے صحابہ کرام نے یہی سمجھا اور امام ابو حنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ وغیرہ ائمہ نے اسی کو اختیار کیا۔ اور حضرت عبداللہ ابن عمرؓ اور حضرت جابرؓ وغیرہ دوسرے بہت سے صحابہ کرامؓ نے اس کو برعکس سمجھا اور حضرت امام شافعیؒ اور امام احمدؒ وغیرہ نے اس کو اختیار کیا، اور رائے کا یہ اختلاف بھی صرف فضیلت میں ہوا، رفع اور ترک رفع کا جواز سب کے نزدیک مسلم ہے۔ اللہ تعالیٰ غلو اور ناانصافی سے حفاظت فرمائے اور اتباع حق کی توفیق دے۔
Top