معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 1028
عَنْ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ الْمَخْزُومِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَا تَزَالُ هَذِهِ الْأُمَّةُ بِخَيْرٍ ، مَا عَظَّمُوا هَذِهِ الْحُرْمَةَ ، حَقَّ تَعْظِيمِهَا ، فَإِذَا ضَيَّعُوا ذَلِكَ ، هَلَكُوا » (رواه ابن ماجه)
فضائل حرمین: حرم مکہ کی عظمت
عیاش بن ابی ربیعہ مخزومی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت جب تک اس حرم مقدس کا پورا احترام کرتی رہے گی اور اس کی حرمت و تعظیم کا حق ادا کرے گی خیریت سے رہے گی اور جب اس میں یہ بات باقی نہ رہے گی برباد ہو جائے گی۔ (سنن ابن ماجہ)

تشریح
ٍمحدثین کرام کا دستور ہے کہ کتاب الحج ہی میں حرمین پاک کے فضائل کی حدیثیں بھی درج کرتے ہیں، اسی دستور کی پیروی میں حرم مکہ اور حرم مدینہ کے فضائل کی احادیث یہاں درج کی جا رہی ہیں۔ حرم مکہ کی عظمت خانہ کعبہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مقدس بیت (گھر) قرار دیا ہے، اور اسی نسبت سے شہر مکہ کو جس میں بیت اللہ واقع ہے بلد اللہ الحرام قرار دیا گیا ہے، گویا جس طرح دنیا بھر کے گھروں میں کعبہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص نسبت ہے اسی طرح دنیا بھر کے شہروں میں مکہ معظمہ کو اللہ تعالیٰ کی نسبت کا خاص شرف حاصل ہے۔ پھر اسی نسبت سے اس کی ہر سمت میں کئی کئی میل کے علاقہ کو حرم (یعنی واجب الاحترام) قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاص آداب و احکام مقرر کئے گئے ہیں اور ادب و احترام ہی کی بنیاد پر بہت سی ان باتوں کی بھی وہاں ممانعت ہے جن کی باقی ساری دنیا مین اجازت ہے۔ مثلاً ان حدود میں کسی کو شکار کی اجازت نہیں، جنگ اور قتال کی اجازت نہیں، درخت کاٹنے اور درختوں کے پتے جھاڑنے کی اجازت نہیں۔ اس محترم علاقہ میں ان سب چیزوں کو ادب و احترام کے خلاف گناہ گارانہ جسارت قرار دیا گیا ہے۔ اس علاقہ حرم کی حدود پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے معین کی تھیں، پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے عہد میں انہی کی تجدید فرمائی اور اب وہ حدود معلوم و معروف ہیں، گویا یہ پورا علاقہ بلد اللہ الحرام کا صحن ہے اور اس کا وہی ادب و احترام ہے جو اللہ کے مقدس شہر مکہ معظمہ کا .... اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کی چند احادیث ذیل میں پڑھئے۔ تشریح ..... گویا بیت اللہ اور بلد اللہ الحرام (مکہ معظمہ) اور پورے علاقہ حرم کی تعظیم و حرمت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق اور سچی وفاداری کی علامت اور نشانی ہے۔ جب تک یہ چیز اجتماعی حیثیت سے امت میں باقی رہے گی اللہ تعالیٰ اس مات کی نگہبانی فرمائے گا اور وہ دنیا میں سلامتی اور عزت کے ساتھ رہے گی اور جب امت کا رویہ بحیثیت مجموعی اس بارے میں بدل جائے گا اور خانہ کعبہ اور حرم مقدس کی حرمت و تعظیم کے بارے میں اس میں تقصیر آ جائے گی تو پھر یہ امت اللہ تعالیٰ کی حمایت و نگہبانی کا استحقاق کھو دے گی، اور اس کے نتیجہ میں تباہیاں اور بربادیاں اس پر مسلط ہوں گی۔ ہمارے اس زمانہ میں سجر کی سہولتوں کی وجہ سے اور بعض دوسری وجوہ سے بھی اگرچہ حج کرنے والوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے لیکن وہاں ساری دنیا کے جو مسلمان آتے ہیں ان کا طرز عمل بتاتا ہے کہ بیت اللہ اور حرم مقدس کے ادب و احترام کے لحاظ سے امت میں بحیثیت مجموعی بہت بڑی تقصیر آ گئی ہے اور بلا شبہ یہ بھی ان اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے جن کی وجہ سے امت مشرق و مغرب میں اللہ تعالیٰ کی نصرت اور نگہبانی سے محروم کر دی گئی ہے۔ اللَّهُمَّ عَافِنَا، وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَعَامِلَنَا بِمَا اَنْتَ اَهْلُهُ وَلَا تُعَامِلْنَا بِمَا نَحْنُ اَهْلُهُ.
Top