معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 969
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : « يَأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللهُ عَلَيْكُمُ الْحَجَّ ، فَحُجُّوا » ، فَقَالَ رَجُلٌ : أَكُلَّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللهِ؟ فَسَكَتَ حَتَّى قَالَهَا ثَلَاثًا ، فَقَالَ : " لَوْ قُلْتُ : نَعَمْ لَوَجَبَتْ ، وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ " ، ثُمَّ قَالَ : « ذَرُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ ، فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ ، وَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَدَعُوهُ » (رواه مسلم)
حج کی فرضیت اور فضیلت
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن خطبہ دیا اور اس میں فرمایا: اے لوگو! تم پر حج فرض کر دیا گیا ہے لہٰذا اس کو ادا کرنے کی فکر کرو .... ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہر سال حج کرنا فرض کیا گیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے اس کے جواب میں سکوت فرمایا اور کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ اس شخص نے تین دفعہ اپنا وہ سوال دوہرایا، تو آپ ﷺ نے (ناگواری کے ساتھ) فرمایا کہ: اگر میں تمہارے اس سوال کے جواب میں کہہ دیتا کہ: " ہاں! ہر سال حج کرنا فرض کیا گیا " تو اسی طرح فرض ہو جاتا، اور تم ادا نہ کر سکتے .... اس کے بعد آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ: کسی معاملہ میں جب میں خود تم کو کوئی حکم نہ دوں تم مجھ سے حکم لینے (اور سوال کر کر کے اپنی پابندیوں میں اضافہ کرنے) کی کوشش نہ کرو .... تم سے پہلی امتوں کے لوگ اسی لیے تباہ ہوئے کہ وہ اپنے نبیوں سے سوال بہت کرتے تھے اور پھر ان کے احکام کی خلاف ورزی کرتے تھے .... لہذا (میری ہدایت تم کو یہ ہے کہ) جب میں تم کو کسی چیز کا حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اس کی تعمیل کرو اور جب تم کو کسی چیز سے منع کروں تو اس کو چھوڑ دو۔ (صحیح مسلم)

تشریح
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے اسلام کے پانچ ارکان میں سے آخری اور تکمیلی رکن " حج بیت اللہ " ہے۔ حج کیا ہے؟ .... ایک معین اور مقررہ وقت پر اللہ کے دیوانوں کی طرح اس کے دربار میں حاضر ہونا، اور اس کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اداؤں، اور طور طریقوں کی نقل کر کے ان کے سلسلے اور مسلک سے اپنی وابستگی اور وفاداری کا ثبوت دینا اور اپنی استعداد کے بقدر ابراہیمی جذبات اور کیفیات سے حصہ لینا اور اپنے کو ان کے رنگ میں رنگنا۔ مزید وضاحت کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک شان یہ ہے کہ وہ ذو الجلال والجبروت، احکم الحاکمین اور شہنشاہ کل ہے، اور ہم اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان اس کی یہ ہے کہ ان تمام صفات جمال سے بدرجہ اتم متصف ہے جس کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے اور اس لحاظ سے وہ .... بلکہ صرف وہی .... محبوب حقیقی ہے۔ اس کی پہلی حاکمانہ اور شاہانہ شان کا تقاضا یہ ہے کہ بندے اس کے حضور میں ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں .... ارکان اسلام میں پہلا عملی رکن نماز اسی کا خاص مرقع ہے اور اس میں یہی رنگ غالب ہے۔ اور زکوٰۃ بھی اسی نسبت کے ایک دوسرے رخ کو ظاہر کرتی ہے .... اور اس کی دوسری شان محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا تعلق اس کے ساتھ محبت اور والہیت کا ہو۔ روزے میں بھی کسی قدر یہ رنگ ہے، کھانا پینا چھوڑ دینا اور نفسانی خواہشات سے منہ موڑ لینا عشق و محبت کی منزلوں میں سے ہے، مگر حج اس کا پورا پورا مرقع ہے۔ سلے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس پہن لینا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں میں کنگھا نہ کرنا، تیل نہ لگانا، خوشبو کا استعمال نہ کرنا، میل کچیل سے جسم کی صفائی نہ کرنا، چیخ چیخ کے لبیک لبیک پکارنا، بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے ایک گوشے میں لگے ہوئے سیاہ پتھر (حجر اسود) کو چومنا، اس کے در و دیوار سے لپٹنا اور آہ و زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے پھیرے کرنا، پھر مکہ شہر سے بھی نکل جانا اور منیٰ اور کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں جا پڑنا، پھر جمرات پہ بار بار کنکریاں مارنا، یہ سارے اعمال وہی ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام گویا اس رسم عاشقی کے بانی ہیں .... اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادائیں اتنی پسند آئیں کہ اپنے دربار کی خاص الخاص حاضری حج و عمرہ کے ارکان و مناسک ان کو قرار دے دیا۔ انہی سب کے مجموعہ کا نام گویا حج ہے، اور یہ اسلام کا آخری اور تکمیلی رکن ہے۔ اس سلسلہ معارف الحدیث کی پہلی جلد " کتاب الایمان " میں وہ حدیثیں گزر چکی ہیں جن میں اسلام کے ارکان پنجگانہ کا بیان ہے، اور ان میں آخری رکن " حج بیت اللہ " بتایا گیا ہے۔ حج کی فرضیت کا حکم راجح قول کے مطابق ۹؁ھ میں آیا، اور اس کے اگلے سال ۱۰؁ھ میں اپنی وفات سے صرف تین مہینے پہلے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کی بڑی تعداد کے ساتھ حج فرمایا، جو " حجۃ الوداع " کے نام سے مشہور ہے۔ اور اسی حجۃ الوداع میں خاص عرفات کے میدان میں آپ پر یہ آیت نازل ہوئی۔ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدة5: 3) آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا۔ اس میں اس طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ حج اسلام کا تکمیلی رکن ہے۔ اگر بندہ کو صحیح اور مخلصانہ حج نصیب ہو جائے جس کو دین و شریعت کی زبان میں " حج مبرور " کہتے ہیں اور ابراہیمیؑ و محمدیؑ نسبت کا کوئی ذرہ اس کو عطا ہو جائے تو گویا اس کو سعادت کا اعلیٰ مقام حاصل ہو گیا، اور وہ نعمت عظمیٰ اس کے ہاتھ آ گئی جس سے بڑی کسی نعمت کا اس دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، اس کو حق ہے کہ تحدیث نعمت کے طور پر کہے اور مست ہو ہو کر کہے ؎ نازم بچشم خود کہ جمالِ تو دیدہ استافتم بہ پائے خود کہ مکویت رسیدہ است ہر دم ہزار بوسہ زنم دست خویش راکہ دامنت گرفتہ بسویم کشیدہ است اس مختصر تمہید کے بعد حج کے متعلق ذیل کی حدیثیں پڑھئے۔ تشریح ..... جامع ترمذی وغیرہ میں قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت علی ؓ سے بھی مروی ہے۔ اس میں یہ تصریح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے حج کی فرضیت کا یہ اعلان اور اس پر یہ سوال و جواب جو حضرت ابو ہریرہ ؓ کی مندرجہ بالا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے سورہ آل عمران کی اس آیت کے نازل ہونے پر پیش آیا تھا۔ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ البَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا اللہ کے واسطے بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے ان لوگوں پر جو اس کی استطاعت رکھتے ہوں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی اس حدیث میں ان صحابی کا نام مذکور نہیں ہے جنہوں نے حضور ﷺ سے سوال کیا گھا کہ: " کیا ہر سال حج کرنا فرض کیا گیا ہے؟ " لیکن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی اسی مضمون کی حدیث جس کو امام احمد اور دارمی اور نسائی وغیرہ نے روایت کیا ہے، اس میں تصریح ہے کہ یہ سوال کرنے والے اقرع بن حابس تمیمی تھے، یہ ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا، ان کو تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا ابھی پورا موقع نہیں ملا تھا، اسی لیے ان سے یہ لغزش ہوئی کہ ایسا سوال کر بیٹھے اور جب حضور ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا تو پھر دوبارہ اور سہ بارہ سوال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ: " اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا واجب ہو جاتا "۔ اس کا منشاء اور مطلب یہ ہے کہ سوال کرنے والے کو سوچنا سمجھنا چاہئے تھا کہ میں نے حج کے فرض ہونے کا جو حکم سنایا تھا اس کا تقاضا اور مطالبہ عمر بھر میں بس ایک حج کا تھا، اس کے بعد ایسا سوال کرنے کا نتیجہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا (اور ظاہر ہے کہ آپ ہاں جب ہی کہتے جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا) تو ہر سال حج کرنا فرض ہو جاتا، اور امت سخت مشکل میں پڑ جاتی .... اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اگلی امتوں کے بہت سےلوگ کثرت سوال اور قیل و قال کی اسی بری عادت کی وجہ سے تباہ ہوئے، انہوں نے اپنے نبیوں سے سوال کر کر کے شرعی پابندیوں میں اضافہ کرایا اور پھر اس کے مطابق عمل کر نہیں سکے۔ حدیث کے آخر میں رسول اللہ ﷺ نے ایک بڑی اور اصولی بات فرمائی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: " جب میں تم کو کسی چیز کا حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اس کی تعمیل کرو، اور جس چیز سے منع کروں اس کو ترک کر دو "۔ مطلب یہ ہے کہ میری لائی ہوئی شریعت کا مزاج سختی اور تنگی نہیں ہے بلکہ سہولت اور وسعت کا ہے، جس حد تک تم سے تعمیل ہو سکے اس کی کوشش کرو، بشری کمزوریوں کی وجہ سے جو کمی کسر رہ جائے گی اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے اس کی معافی کی امید ہے۔
Top