معارف الحدیث - کتاب الاذکار والدعوات - حدیث نمبر 1054
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَسِيرُ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ فَمَرَّ عَلَى جَبَلٍ يُقَالُ لَهُ جُمْدَانُ، فَقَالَ: «سِيرُوا هَذَا جُمْدَانُ سَبَقَ الْمُفَرِّدُونَ» قَالُوا: وَمَا الْمُفَرِّدُونَ؟ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: «الذَّاكِرُونَ اللهَ كَثِيرًا، وَالذَّاكِرَاتُ» (رواه مسلم)
ذکر اللہ کی عظمت اور اس کی برکات
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں مکہ مکرمہ کی طرف تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں جَمْدان نامی پہاڑ پر سے گزر ہوا تو آپ ﷺنے فرمایا: یہ پہاڑ جمدان ہے، مُفَرِّدُونَ سبقت لے گئے۔ عرض کیا گیا: مُفَرِّدُونَ کون لوگ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کا زیادہ ذکر کرنے والے بندے اور زیادہ ذکرنے والی بندیاں۔ (صحیح مسلم)

تشریح
جمدان ایک پہاڑی کا نام ہے جو مدینہ طیبہ کے قریب ہی ایک دن کی مسافت پر ہے۔ متعدد حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے جس حصہ پر اللہ کا نام لیا جاتا ہے اس کا شعور و احساس اس حصہ زمین کو ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ "ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ پوچھتا ہے کہ کیا آج اللہ کا نام لینے والا کوئی بندہ تجھ پر سے گزرا؟" جب وہ بتاتا ہے کہ ہاں گزرا، تو وہ کہتا ہے کہ "تجھے بشارت ہو، مبارک ہو!" معلوم ہوتا ہے کہ جمدان پہاڑ پر سے گزرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ جو زیادہ ذکر کرنے والے بندے اور بندیاں ہیں اُنہوں نے قبول و رضا کے بڑے مقامات حاصل کر لئے اور وہ بہت آگے بڑھ گئے، تو آپ ﷺ نے یہ بات فرمائی کہ مُفَرِّدُونَ یعنی بہت زیادہ ذکر کرنے والے سبقت لے گئے۔ مُفَرِّدُونَ کے لغوی معنی ہیں اپنے کو سب سے الگ اور اکیلا اور ہلکا پھلکا کر لینے والے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کے قرب و رضا کی طلب میں اپنے کو اس دنیا کی الجھنوں سے ہلکا کر لیں، اور سب طرف سے کٹ کے اکیلے اللہ کے ہو جائیں، یہی مقام تفرید ہے، اور یہی قرآن مجید کی خاص اصطلاح میں تَبَتُّلْ ہے (وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا) پس "الذَّاكِرُونَ اللهَ كَثِيرًا، وَالذَّاكِرَاتُ" کے مصداق وہی بندے ہیں جن کا یہ حال ہوا اور جنہوں نے ہر طرف سے کٹ کر اللہ جل جلالہ کو اپنا قبلہ مقصود بنا لیا ہو۔
Top