مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4569
وعن جابر قال أتيت النبي صلى الله عليه وسلم في دين كان على أبي فدققت الباب فقال من ذا ؟ فقلت أنا . فقال أنا أنا . كأنه كرهها .
کسی دروازے پر پہنچ کر اپنی آمد کی اطلاع کرو تو نام بتاؤ۔
اور حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن میں ایک قرض کے معاملہ میں جو میرے باپ پر تھا نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اپنی آمد کی اطلاع دینے کے لئے دروازے کو کھٹکھٹایا، آپ نے اندر سے پوچھا کون ہے؟ میں نے کہا میں ہوں، آپ نے یہ سن کر فرمایا کہ میں ہوں، میں ہوں، گویا آپ نے میرے اس طرح جواب دینے کو برا سمجھا۔ (بخاری، مسلم)

تشریح
قرض کا وہ معاملہ جس سلسلے میں حضرت جابر ؓ نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے یہ تھا کہ ان کے والد حضرت عبداللہ انصاری ؓ غزوہ احد میں شہید ہوگئے تھے اور اپنے ذمہ کچھ قرض چھوڑ گئے تھے، جب قرض خواہوں نے حضرت جابر ؓ سے اس قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کیا اور ان کو تنگ کرنا شروع کردیا تو وہ مدد چاہنے کے لئے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ اس قرض کی ادائیگی کا کوئی انتظام ہو اور قرض خواہوں سے نجات مل جائے اس وقت حضرت جابر ؓ کی ملکیت میں تھوڑی سی کھجوروں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا لیکن اس موقع پر نبی ﷺ کا معجزہ ظاہر ہوا کہ ان کھجوروں میں برکت ہوئی اور اتنی برکت ہوئی کہ حضرت جابر ؓ نے ان کھجوروں سے پورا قرض ادا کردیا اور اس کے بعد بھی وہ جوں کی توں باقی رہیں ان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ میں ہوں کہنے کو آنحضرت ﷺ نے اس لئے برا سمجھا کہ اس جملہ کے ذریعہ ابہام کا ازالہ نہیں ہوتا اور صاحب خانہ پر یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ کون شخص ہے گویا یہ کہنے سے اس صورت میں صاحب خانہ کا یہ سوال کہ کون ہے جوں کا توں باقی رہتا ہے لہذا حضرت جابر ؓ کو چاہیے تھا کہ وہ نام لقب، یا کنیت بتاتے تاکہ یہ معلوم ہوجاتا کہ باہر دروازے پر کون شخص ہے اگرچہ بعض اوقات محض آواز پہچان لینے سے بھی شخصیت واضح ہوجاتی ہے خاص طور سے اس صورت میں جب کہ میں ہوں کہنے والا شخص ایسا ہو جس کے ساتھ ہر وقت اٹھنا بیٹھنا ہو یا اس سے راہ و رسم ہو، چناچہ ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے میں ہوں کی آواز سے حضرت جابر ؓ کی آواز کو پہچان لیا ہوگا مگر اس کے باوجود آپ نے اپنی ناگواری کا اظہار حضرت جابر ؓ کو اس ادب کی تعلیم کے طور پر کیا کہ کسی کے دروازے پر پہنچ کر اپنی آمد کی اطلاع دو صاف طرح سے اپنا نام بتاؤ محض یہ کہنے پر اکتفا نہ کرو کہ میں ہوں۔ یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت جابر ؓ کے اس طرح کہنے کو اس لئے برا سمجھا کہ انہوں نے سلام کرنے کے ذریعہ اجازت حاصل کرنے کے طریقہ کو ترک کیا جو مسنون ہے۔ آنحضرت کا میں ہوں، میں ہوں، دو بار کہنا حضرت جابر ؓ کے اس جواب کو قبول کرنے سے انکار کے طور پر تھا اور اس کا مفہوم گویا یوں تھا کہ میں ہوں میں ہوں کیا کہتے ہو، اپنا نام کیوں نہیں بتاتے۔
Top