مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4598
عن أبي سعيد الخدري قال لما نزلت بنو قريظة على حكم سعد بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم إليه وكان قريبا منه فجاء على حمار فلما دنا من المسجد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للأنصار قوموا إلى سيدكم . متفق عليه . ومضى الحديث بطوله في باب حكم الأسراء . ( متفق عليه )
اہل فضل کی تعظیم کے لئے کھڑے ہونا جائز ہے۔
حضرت ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ جب بنو قریظہ حضرت سعد ؓ کے حکم و ثالث بنانے پر اتر آئے تو رسول اکرم ﷺ نے کسی شخص کو حضرت سعد ؓ کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان کو بلائے اور وہ آ کر بنو قریظہ کا مطالبہ طے کریں) اس وقت حضرت ابوسعد ؓ آنحضرت ﷺ کی کے قریب ہی فروکش تھے چناچہ وہ خر پر بیٹھ کر آئے اور جب مسجد کے قریب پہنچے تو رسول اکرم ﷺ نے ان کو دیکھ کر یہ فرمایا اے انصار تم اپنے سردار کے لئے کھڑے ہوجاؤ۔ (بخاری ومسلم) اور یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ قیدیوں کے باب میں گزر چکی ہے۔

تشریح
بنو قریظہ مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلہ کا نام ہے، سن ٥ ھ میں غزوہ خندق کے دوران ان یہودیوں نے جو منافقانہ کردار کیا اور باوجودیکہ سابقہ معاہدہ کے تحت مدینہ کے اس دفاعی مورچہ پر ان یہودیوں کو بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ کفار عرب کی جارحیت کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن انہوں نے اپنی روایتی بدعہدی اور شرارت کا مظاہرہ کیا اور مختلف قسم کی سازشوں کے ذریعہ اس دفاعی مورچہ کو توڑنے کے لئے کفار عرب کے آلہ کار بن گئے ان کی اس بدعہدی اور سازشی کاروائیوں کی بناء پر آنحضرت ﷺ نے غزوہ خندق کی فتح سے فارغ ہوتے ہی ان بنو قریظہ کے ساتھ اعلان جنگ کردیا اور ان سب یہودیوں کو ان کے قلعہ میں محصور ہونے پر مجبور کردیا مسلمانوں کی طرف سے بنو قریظہ کے قلعہ کا محاصرہ ٢٥ دن تک جاری رہا آخر کار انہوں نے یہ تجویز رکھی کہ ہمارا معاملہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کے سپرد کردیا جائے جو قبیلہ اوس کے سردار تھے اور قبیلہ اوس بنو قریظہ کا حلیف ان یہودیوں نے کہا کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کو پنچ اور حکم تسلیم کرتے ہیں وہ ہمارے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں گے ہم اس کو بےچون چرا مان لیں گے یہودیوں کا خیال تھا کہ حضرت سعد ؓ چونکہ ہمارے حلیف قبیلے سردار ہیں اور ان کے اور ہمارے تعلقات کی ایک خاص نوعیت ہے اس لئے حضرت سعد ؓ یقینا ہمارے حق میں فیصلہ دیں چناچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت سعد ؓ کو بلا بھیجا کہ وہ آ کر اس معاملہ میں اپنا فیصلہ دیں، حضرت سعد ؓ اگرچہ اس آنحضرت ﷺ کی قیام گاہ کے قریب ہی فروکش تھے لیکن چونکہ غزوہ خندق میں وہ بہت سخت مجروح ہوگئے تھے اور خاص طور پر رگ ہفت اندام پر ایک زخم پہنچا تھا جس سے خون برابر جاری تھا اس لئے خچر پر بیٹھ کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اس وقت تک ان کے زخم سے خون جاری تھا لیکن یہ آنحضرت ﷺ کا اعجاز تھا کہ جب آپ نے ان کو بلوا بھیجا تو خون رک گیا بہر حال حضرت معاذ ؓ آئے اور انہوں نے پورے معاملہ کے مختلف پہلوؤں پر غور کر کے اور ان کے جرم بد عہدی و غداری کی بنا پر انہی کی شریعت کے مطابق جو فیصلہ دیا اس کا اصل یہ تھا کہ ان کے لڑ سکنے والے مرد قتل کردیئے جائیں، عورتیں اور بچے غلام بنا لئے جائیں اور ان کے مال و اسباب کو تقسیم کردیا جائے اس فیصلہ پر کسی حد تک عمل بھی ہوا۔ یہاں حدیث میں اسی وقت کے واقعہ کا ذکر ہے کہ جب حضرت سعد ؓ آئے تو آنحضرت ﷺ نے انصار سے کہا کہ دیکھو تمہارے سردار آ رہے ہیں کھڑے ہوجاؤ چناچہ اکثر علماء اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کوئی صاحب فضل و قابل تکریم شخص آئے تو اس کے اعزازو احترام کے لئے کھڑے ہوجانا چاہیے، اس کے برخلاف بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ قوموا الی سیدکم سے آنحضرت ﷺ کی یہ مراد نہیں تھی سعد ؓ کی تعظیم و تکریم کے لئے کھڑے ہوجاؤ جیسا کہ کسی بڑے آدمی کے آجانے پر کھڑے ہونے کا رواج ہے اور جس کی ممانعت ثابت ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ چیز عجمیوں کے رائج کردہ تکلفات میں سے ہے نیز یہ عمل آنحضرت ﷺ کے نزدیک آخر زمانہ حیات تک ناپسندیدہ رہا، یحییٰ کہتے ہیں کہ اگر اس ارشاد سے آنحضرت ﷺ کی مراد تعظیم و تکریم کے لئے کھڑے ہوجانے کا حکم دینا ہوتا تو آپ اس موقع پر قوموا الی سیدکم، نہ فرماتے بلکہ یہ فرماتے کہ قوموا السیدکم، لہذا ان کے علماء کے مطابق اس حکم سے آنحضرت ﷺ کی مراد یہ تھی کہ دیکھو تمہارے سردار سعد آ رہے ہیں ان کی حالت اچھی نہیں ہے جلدی سے اٹھ کر ان کے پاس جاؤ سواری سے اترنے میں ان کی مدد کرو تاکہ اترتے وقت ان کو تکلیف نہ ہو اور زیادہ حرکت کی بناء پر زخم سے خون نہ بہنے لگے۔ ان علماء کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو روایت ہے کہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل جب بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو آپ ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے تھے، یا حضرت عدی ابن حاتم کی جو یہ روایت نقل کی جاتی ہے کہ انہوں نے کہا میں جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ میرے لئے یا تو کھڑے ہوجاتے یا اپنی جگہ سے ہل جایا کرتے تھے تو ان روایتوں سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ محدثین نے ان روایتوں کو ضعیف قرار دیا ہے۔ جو حضرات اہل فضل و کمال کے آنے پر کھڑے ہونے کو جائز قرار دیتے ہیں ان کا یہ کہنا کہ اگر حضرت عکرمہ اور حضرت عدی کے بارے میں مذکورہ بالا روایتیں ضعیف ہیں اور ان سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے تو پھر اس روایت کے بارے میں کیا کہا جائے گا جو حضرت فاطمہ ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ جب آنحضرت ﷺ حضرت فاطمہ ؓ کے پاس تشریف لاتے تو حضرت فاطمہ ؓ آپ کے لئے کھڑی ہوجاتی تھیں اور جب حضرت فاطمہ ؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کے لئے کھڑے ہوجاتے اگر اس روایت کی یہ تاویل کی جائے کہ ان کا کھڑا ہونا اظہار محبت و اتقبال کے طور پر ہوتا نہ کہ تعظیم و اجلال کے طور پر تو یہ تاویل بعید از حقیقت سمجھے جانے سے خالی نہیں ہوگی علاوہ ازیں خود طیبی نے محیی السنۃ سے نقل کیا ہے کہ جمہور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر اہل فضل و کمال جیسے علماء و صلحاء اور بزرگان دین کا اعزازو اکرام کرنا جائز ہے علاوہ ازیں محی السنۃ نووی نے یہ لکھا ہے کہ یہ کھڑا ہونا اہل فضل کے آنے کے وقت مستحب ہے اور نہ صرف یہ کہ اس سلسلے میں احادیث بھی منقول ہیں بلکہ اس کی صریح ممانعت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ مطالب المومنین میں قنیہ کے حوالہ سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ آنے والے کی تعظیم کے طور پر بیٹھے ہوئے لوگوں کا قیام یعنی کھڑے ہوجانا مکروہ نہیں ہے اور یہ کہ قیام بنفسہ مکروہ نہیں ہے بلکہ قیام کی طلب و پسندیدگی مکروہ ہے چناچہ وہ قیام ہرگز مکروہ نہیں ہوگا جو کسی ایسے شخص کے لئے کیا جائے جو نہ تو اپنے لئے قیام کی طلب رکھتا ہو اور نہ اس کو پسند کرتا ہو۔ قاضی عیاض مالکی نے یہ لکھا ہے کہ کھڑے ہونے کی ممانعت کا تعلق اس شخص کے حق میں ہے جو بیٹھا ہوا ہو اور بیٹھے رہنے تک لوگ اس کے سامنے کھڑے رہیں جیسا کہ ایک حدیث میں منقول ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص نظر آئے جو علم و فضل اور بزرگی کا حامل ہو تو اس کی تعظیم و توقیر کے طور پر کھڑے ہوجانا جائز ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ ایسے شخص کے آنے پر کھڑے ہونا جو نہ صرف یہ کہ اس اعزاز کا مستحق نہ ہو بلکہ اپنے آنے پر لوگوں کے کھڑے ہوجانے کی طلب و خواہش رکھتا ہو، مکروہ ہے اور اسی طرح بیجاخوشامد و چاپلوسی کے طور پر کھڑے ہونا بھی مکروہ ہے، نیز دنیاداروں کے لئے کھڑے ہونا اور ان کی تعظیم کرنا بھی نہایت مکروہ ہے اور اس بارے میں سخت وعید منقول ہے۔
Top