مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4645
وعن هلال بن يساف قال كنا مع سالم بن عبيد فعطس رجل من القوم فقال السلام عليكم . فقال له سالم وعليك وعلى أمك . فكأن الرجل وجد في نفسه فقال أما إني لم أقل إلا ما قال النبي صلى الله عليه وسلم إذ عطس رجل عند النبي صلى الله عليه وسلم فقال السلام عليكم فقال النبي صلى الله عليه وسلم عليك وعلى أمك إذا عطس أحدكم فليقل الحمد لله رب العالمين وليقل له من يرد عليه يرحمك الله وليقل يغفر لي ولكم رواه الترمذي وأبو داود .
چھینک کے وقت سلام
اور حضرت ہلال ابن یساف (تابعی) کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ حضرت سالم بن عبید ؓ کے ساتھ تھے کہ جماعت میں سے ایک شخص کو چھینک آئی اور اس نے الحمد للہ کے بجائے السلام علیکم کہا بایں گمان کے چھینک کے بعد الحمد للہ کے بجائے السلام علیکم کہنا بھی جائز ہے حضرت سالم ؓ نے اس شخص کے جواب میں کہا تم پر اور تمہاری ماں پر بھی سلام اس شخص نے گویا اپنے دل میں ان الفاظ (تمہاری ماں پر بھی سلام) کا برا مانا، حضرت سالم ؓ نے اس کی ناگواری کو محسوس کیا اور کہا اس ناگواری کی کیا بات ہے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے وہی الفاظ کہے ہیں جو آنحضرت ﷺ نے اس وقت ارشاد فرمائے تھے جب کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ کے سامنے چھینکا تھا اور اس نے الحمد للہ کے بجائے السلام علیکم کہا تھا چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ تم پر اور تمہاری ماں پر سلام۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اس کو چاہیے کہ الحمدللہ کہے اور جواب دینے والے کو چاہیے کہ یرحمک اللہ کہے اور پھر چھینکنے والے کو بطریق استحباب چاہیے کہ یغفرللہ لی ولکم یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری اور میری مغفرت فرمائے۔ (ترمذی، ابوداؤد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ چھینک آنے پر الحمد للہ کے الفاظ کہنے چاہیے اس موقع پر حاضرین کو سلام کرنا نہ کوئی معنی رکھتا ہے اور نہ اس کی کوئی اصل ہے۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ یرحمک اللہ کہنے کے جواب میں چھینکنے والے یغفر اللہ لی ولکم کے ساتھ یھدیکم اللہ بھی کہنا اولی اور افضل ہے۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر چھینکنے والا الحمد للہ کے بجائے کوئی اور الفاظ کہے تو وہ چھینک کے جواب کا مستحق نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس شخص کی چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ نہیں فرمایا البتہ اس شخص نے چونکہ آپ کو سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا، رہی یہ بات کہ آپ نے سلام کے جواب میں وعلی امک اور تمہاری ماں پر بھی سلام کے الفاظ کیوں فرمائے تو دراصل آپ نے اس لفظ کے ذریعہ دو باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ایک تو یہ کہ اس موقع پر سلام کرنا بےمحل و بےموقع ہے اور یہ ایسا ہی جیسے کوئی شخص سلام تو تمہیں کرنا چاہے مگر یہ ہے یوں کہ تم پر اور تمہاری ماں پر سلام۔ دوسری بات یہ کہ کسی بھی لفظ و کلام کا بےمحل و بےموقع استعمال کرنا چاہیے اپنے آپ کو علم و تربیت اور مجلس کے آداب سے بےبہرہ ثابت کرنا ہے اور اس بات کا اظہار کرنا ہے کہ میں اس شخص کی طرح ہوں جو کسی مرد دانا کی تربیت سے محروم اور محض ماں کی غیر موزوں تربیت کا حامل ہو اور جس کے دل و دماغ پر زنانہ ماحول اور زنانہ طور طریقوں کا اثر ہو، نیز علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان الفاظ کے ذریعہ گویا اس شخص کی نادانی کو ظاہر کیا گیا ہے جو اس میں ماں کے اوصاف کے سرایت کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی اسی اعتبار سے وہ اپنی ماں کے حق میں آنحضرت ﷺ کی دعا کا محتاج تھا، چناچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے ساتھ تمہاری ماں پر بھی سلامتی ہو کہ اللہ اس کو عقل کی دولت سے نوازے اور نادانی کے فتنہ سے محفوظ رکھے۔
Top