مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4679
وعن بشير بن ميمون عن أسامة بن أخدري أن رجلا يقال له أصرم كان في النفر الذين أتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما اسمك ؟ قال بل أنت زرعة . رواه أبو داود وقال وغير النبي صلى الله عليه وسلم اسم العاص وعزير وعتلة وشيطان والحكم وغراب وحباب وشهاب وقال تركت أسانيدها للاختصار
ایسے نام رکھنے کی ممانعت جو اسماء الہی میں سے ہیں۔
اور حضرت بشیر بن میمون (تابعی) اپنے چچا اسامہ ؓ ابن اخدری سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک جماعت حاضر ہوئی تو اس میں ایک شخص بھی تھا جس کو اصرام کہا جاتا تھا رسول اللہ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا کہ مجھ کو اصرام کہتے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ آج تمہارا نام زرعہ ہے۔ اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے نیز انہوں نے بطریق تحلیق یہ بھی نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عاص، عزیز، عتلہ، شیطان، حکم، غراب، حباب اور شہاب ناموں کو بدل دیا تھا۔ ابوداؤد (رح) کہ میں نے احتصار کے پیش نظر ان روایتوں کو کہ جس میں مذکورہ ناموں کو بدلنے کا ذکر ہے بغیر اسناد کے نقل کیا ہے۔

تشریح
اصرام صرم سے مشتق ہے جس کے معنی قطع و برید کرنا، ترک سلام و کلام کرنا اور درخت کاٹنا ہیں ان کی مناسبت سے آپ نے اصرام نام کو ناپسند فرمایا اور اس کے بجائے مذکورہ نام رکھ دیا یہ لفظ زراعت سے ماخوذ ہے اور اپنے معنی کے اعتبار سے جود و سخاوت اور خیر و برکت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آخر میں ابوداؤد نے آنحضرت ﷺ کی طرف سے جن ناموں کے بدلے جانے کا ذکر کیا ہے ان میں عاص، عاصی کا مخفف ہے یہ نام لفظی مفہوم کے اعتبار سے عصیان و سرکشی، عدم اطاعت اور نافرمانی پر دلالت کرتا ہے جب کہ مومن کی خصوصیات اطاعت و فرمانبرداری ہے اس لئے کسی مومن کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ عاص یا عاصیہ نام رکھے۔ عزیز چونکہ اللہ کے اسماء میں سے ایک اسم پاک ہے اس لئے عبدالعزیز نام رکھنا تو مناسب ہے لیکن صرف عزیز نام غیر موزوں ہے علاوہ ازیں یہ لفظ غلبہ قوت عزت و زور آوری پر دلالت کرتا ہے جو اللہ کی شان ہے جب کہ بندے کی شان ذلت و انکساری، حضوع اور فروتنی ہے اسی طرح حمید نام رکھنا بھی غیر مناسب ہے کیونکہ یہ بھی اللہ کے اسماء اور اس کی صفات میں سے ایک ہے اور بطریق مبالغہ اس کی ایک صفت ہے اس اعتبار سے کسی شخص کا نام عبدالحمید موزوں ہے کریم وغیرہ کو بھی اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ عتلہ نام کو بھی آپ نے اس لئے ناپسند فرمایا کہ اس میں غلظت وشدت اور سختی کے معنی نکلتے ہیں جب کہ مومن کو نرم و ملائمت کے ساتھ موصوف کیا گیا ہے۔ شیطان نام رکھنا نہ صرف اس ذات کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے بلکہ اس کے لفظی مفہوم کے اعتبار سے بھی نہایت غیر موزوں ہے کیونکہ لفظ شیطان یا تو شیط سے نکلا ہے جس کے معنی جل جانا ہلاک ہوجانا، شطن سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں اللہ کی رحمت سے دور ہونا۔ حکم حاکم کا مبالغہ ہے اور حقیقی حاکم صرف اللہ کی ذات ہے کہ بس اسی کا حکم قابل نفاظ بھی ہے اور لائق اطاعت بھی اس اعتبار سے حکم نام بھی غیر موزوں ہے اور جب آنحضرت ﷺ نے ابوالحکم کی کنیت کو پسند نہیں فرمایا جیسا کہ پیچھے روایت گزری ہے تو حکم تام کا تغیر بطریق اولی مناسب ہے۔ غراب نام کی ناپسندیدگی کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ غراب کوے کو کہتے ہیں جو جانوروں میں پلید جانور ہے وہ مردار اور نجاست کھاتا ہے دوسرے یہ کہ اس کے معنی دوری کے ہیں۔ حباب نام اس اعتبار سے نہایت غیر موزوں ہے کہ یہ شیطان کا نام ہے اور سانپ کو بھی حباب کہتے ہیں۔ شہاب آگ کے اس شعلہ کو کہتے ہیں کہ جو فرشتے شیطانوں پر مارتے ہیں اس مناسبت کے شیاب نام رکھنا بھی غیر پسندیدہ ہے البتہ اگر شہاب کی اضافت دین کی طرف کی جائے یعنی شہاب الدین نام رکھا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔
Top