مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4710
وعن أبي سعيد الخدري قال بينا نحن نسير مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعرج إذ عرض شاعر ينشد . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم خذوا الشيطان أو أمسكوا الشيطان لأن يمتلئ جوف رجل قيحا خير له من أن يمتلئ شعرا . رواه مسلم
شعر کی برائی
اور حضرت ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سفر کے دوران عرج میں تھے کہ اچانک ایک شاعر سامنے سے نمودار ہوا جو اشعار پڑھنے میں مشغول تھا، رسول اللہ ﷺ نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ اس شیطان کو پکڑ لو یا یہ فرمایا کہ اس شیطان کو جانے دو یعنی اس کو شعر پڑھنے سے روک دیا، یاد رکھو! انسان کا اپنے پیٹ کو پیپ سے بھرنا اس میں اشعار بھرنے سے بہتر ہے۔ (مسلم)

تشریح
۔ عرج، مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان راستہ میں پڑنے والی ایک گھاٹی کا نام ہے جہاں ایک چھوٹی سی بستی بھی ہے اس راستے پر چلنے والے قافلے یہاں منزل کرتے تھے آنحضرت ﷺ بھی سفر ہجرت اور حجۃ الوداع میں اس جگہ سے گزرے تھے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ حجۃ الوداع کے سفر کے دوران کا ہے۔ بہرحال جب آنحضرت ﷺ نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ شعر پڑھنے میں بری طرح مشغول ہے یہاں تک کہ اس کو وہاں موجود مسلمانوں کی طرف بھی کوئی التفات نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے آنحضرت ﷺ اور تمام مسلمانوں سے صرف نظر کئے ہوئے بےمحابا چلا جارہا ہے۔ اور اس کو شوق شعر و شاعری نے اس درجہ بےباک بنادیا ہے کہ وہ انسانی اور اخلاقی تقاضوں اور آداب زندگی کو فراموش کر بیٹھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے رگ وپے میں صرف شعر و شاعری ہی سرایت کئے ہوئے اور وہ پرلے درجے کا بےحیاء وبے ادب بن گیا ہے تو آپ ﷺ نے اس کو شیطان فرمایا جس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ یہ شخص رحمت الٰہی اور قرب الٰہی سے بعد اختیار کئے ہوئے اور ظاہر ہے کہ اس سے صورت حال کا صدور محض اس لئے ہوا کہ وہ اپنی شعروشاعری کے غرور نخوت میں مبتلا تھا اس لئے آپ نے شعر کی مذمت کی۔
Top