مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4731
وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أتدرون ما الغيبة ؟ قالوا الله ورسوله أعلم . قال ذكرك أخاك بما يكره . قيل أفرأيت إن كان في أخي ما أقول ؟ قال إن كان فيه ما تقول فقد اغتبته وإن لم يكن فيه ما تقول فقد بهته . رواه مسلم . وفي رواية إذا قلت لأخيك ما فيه فقد اغتبته وإذا قلت ما ليس فيه فقد بهته . (متفق عليه)
غیبت کے معنی اور اس کی تفصیل
اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن صحابہ کرام سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو غیبت کس کو کہتے ہیں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا غیبت یہ ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کا ذکر اس طرح کرو کہ جس کو وہ اگر سن لے تو ناپسند کرے۔ بعض صحابہ کرام نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ بتائیے کہ اگر میرے اس بھائی میں جس کا میں نے برائی کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ عیب ہوں جو میں نے بیان کیا ہے تو کیا جب بھی غیبت ہوگی یعنی میں نے ایک شخص کے بارے میں اس کے پیٹھ پیچھے یہ ذکر کیا کہ اس میں فلاں برائی ہے جب کہ اس میں وہ واقعتًا برائی ہو اور میں نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہو اور ظاہر ہے کہا اگر وہ شخص اپنے بارے میں میرے اس طرح ذکر کرنے کو سنے تو یقینًا خوش ہوگا تو کیا میرا اس کی طرف کسی برائی کو منسوب کرنا جو درحقیقت اس میں ہے غیبت کہلائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم نے اس کی جس برائی کا ذکر کیا ہے اگر وہ واقعی اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ برائی موجود نہیں ہے جس کو تم نے ذکر کیا ہے تم نے اس پر بہتان لگایا یعنی یہی تو غیبت ہے کہ تم کسی کا کوئی عیب اس کے پیٹھ پیچھے بالکل سچ بیان کرو اور اگر تم اس کے عیب کو بیان کرنے میں سچے نہیں ہو کہ تم نے اس کی طرف جس عیب کی نسبت کی ہے وہ اس میں موجود نہیں ہے تو یہ افتراء اور بہتان ہے جو بذات خود ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ (مسلم) اور مسلم ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم اپنے کسی مسلمان بھائی کی وہ برائی بیان کی جو واقعی اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر تم نے اس کی طرف ایسی برائی کی نسبت کی جو اس میں موجود نہیں ہے تو تم نے اس پر بہتان لگایا۔

تشریح
۔ غیبت یعنی پیٹھ پیچھے کسی کا کوئی عیب بیان کرنا نہ صرف ایک گناہ لوگوں میں زیادہ پھیلا ہوا ہے ایسے لوگ بہت کم ہوں گے جو اس برائی سے بچے ہوئے ہیں ورنہ عام طور پر ہر شخص کسی نہ کسی صورت میں غیبت کرتا نظر آتا ہے لہذا ضروری ہے کہ اس بات میں کچھ تفصیل بیان کردی جائے۔ جیساکہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے غیبت اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص کسی ایسے شخص کے بارے میں جو موجود نہ ہو اس طرح کا ذکر کرے جس سے اس کا کوئی عیب ظاہر ہو اور وہ اس عیب کے ذکر کئے جانے کو ناپسند کرے اور اس عیب کا تعلق خواہ اس کے بدن سے ہو یا عقل سے خواہ اس کے دین سے ہو یا دنیا سے، خواہ اس کے اخلاق و افعال سے ہو یا نفس سے خواہ اس کے مال و اسباب سے، ہو یا اولاد سے خواہ اس کے ماں باپ سے ہو یا بیویو خادم وغیرہ سے خواہ اس کے لباس وغیرہ سے ہو یا رفتاروگفتار سے، خواہ اس کی ہیبت کذائی سے یا نشست وبرخاست سے، خواہ اس کے حرکات و سکنات سے ہو یا عادات واطوار سے، خواہ اس کی کشادہ روئی سے ہو یا ترش روئی سے اور خواہ اس کی تندخوئی وسخت گوئی سے ہو یا نرم خوئی اور خاموشی سے اور یا ان چیزوں کے علاوہ کسی بھی ایسی چیز سے ہو جو اس سے متعلق ہوسکتی ہے نیز اس عیب کے ساتھ اس کا ذکر کرنا خواہ الفاظ کے ذریعہ ہو یا اشارہ و کنایہ اور رمز کے ذریعہ اور اشارہ کنایہ بھی خواہ لفظ وبیان کے ذریعہ ہو یا ہاتھ آنکھ، ابرو اور سر وغیرہ کے ذریعہ۔ اس سلسلہ میں یہ قاعدہ کلیہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اگر کسی شخص کا کوئی عیب اس کی عدم موجودگی میں بیان کیا جائے جو دوسروں کی نظروں میں اپنے ایک مسلمان بھائی کی حثییت و شخصیت کو گھٹاتا ہے تو یہ سخت غیبت ہے اور حرام ہے اور اگر کسی کے منہ پر اس کے کسی عیب کو اس طرح بیان کیا جائے جس سے اس کو ناگواری اور دل شکنی ہو تو یہ ایک طرح کی بےحیائی، سنگدل اور ایذاء رسانی ہے کہ یہ اور بھی سخت گناہ ہے۔ غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے غیبت کرنے والا اس سے معافی طلب کرے بشرطیکہ اس غیبت کی خبر اس تک پہنچی ہو اور اس سے معافی کی طلب کے وقت تفصیل بیان کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اجمالی طور پر اتنا ہی کافی ہے کہ میں نے تمہاری غیبت کی ہے مجھے معاف کردو اور اگر وہ غیبت اس تک نہ پہنچی بایں طور کہ وہ مرگیا ہو یا کسی دور دراز جگہ پر ہو تو اس صورت میں استغفار کافی ہے یعنی اپنے اس گناہ پر اللہ سے مغفرت و بخشش طلب کرے نیز احادیث میں یہ بھی منقول ہے کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے اس کے حق میں استغفار کرنا غیبت کے کفارہ میں داخل ہے۔ غیبت کس صورت میں جائز ہے علماء نے لکھا ہے کہ کسی کا عیب اس کے پیٹھ پیچھے بیان کرنا بعض صورتوں میں جائز ہے مثلا کوئی شرعی صورت لاحق ہو، جیسے ظالم کا ظلم بیان کرنا، حدیث کے راویوں کا حال ظاہر کرنا، نکاح کے مشورہ کے وقت کسی کا نسب یا حال رویہ بیان کرنا، یا کوئی مسلمان کسی سے امانت وشرکت وغیرہ کا کوئی معاملہ کرنا چاہتا ہے تو اس مسلمان کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لئے اس شخص کارویہ بیان کردینا وغیرہ وغیرہ اسی طرح کوئی شخص ظاہری طور پر دین دار زندگی کا حامل ہے یعنی نماز بھی پڑھتا ہے اور روزہ بھی رکھتا ہے اور دیگر فرائض بھی پورے کرتا ہے مگر اس میں یہ عیب ہے کہ لوگوں کو اپنی زبان اور اپنے ہاتھ سے تکلیف و نقصان پہنچاتا ہے تو لوگوں کے سامنے اس کے اس عیب کا ذکر کرنا غیبت نہیں کہلائے اور اگر اس شخص کے بارے میں ذمہ داران حکومت کو اطلاع دے دی جائے تاکہ وہ اس کو متنبہ کردیں اور اس کی ایذاء رسانی سے لوگ محفوظ رہیں تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں۔ علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ بطریق اصلاح و اہتمام کسی شخص کے عیب کو ذکر کرنا کوئی مضائقہ نہیں رکھتا ممانعت اس صورت میں ہے کہ جب کہ اس کے عیب کو ذکر کرنے کا مقصد اس شخص کی برائی بیان کرنا اور اس کو نقصان و تکلیف پہنچانا ہو اسی طرح کسی شخص کی کسی شہر والوں یا کسی بستی کے لوگوں کی غیبت نہیں کہیں گے جب تک کہ وہ متعین طور پر کسی جماعت کا نام لے کر اس کی غیبت نہ کرے۔
Top