مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4761
وعن صفوان بن سليم أنه قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم أيكون المؤمن جبانا ؟ قال نعم . فقيل أيكون المؤمن بخيلا ؟ قال نعم . فقيل أيكون المؤمن كذابا ؟ قال لا . رواه مالك والبيهقي في شعب الإيمان مرسلا
خیانت و جھوٹ، ایمان کی ضد میں
اور حضرت صفوان ابن سلیم ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے آپ نے فرمایا ہوسکتا ہے پھر آپ سے پوچھا گیا کیا مومن بخیل ہوسکتا ہے آپ نے فرمایا ہوسکتا ہے پھر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کیا مومن بہت جھوٹا ہوسکتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ نہیں اس روایت کو مالک نے اور بہیقی نے شعب الایمان میں بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ کوئی مومن کسی موقع پر بزدلی دکھا سکتا ہے اور کسی صورت میں بخیل بی ہوسکتا ہے لیکن وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا، کیونکہ ایمان کی صداقت و حقانیت کذب کے منافی ہے جو اپنی اصلی اور نفس الامر کے اعتبار سے باطل ہے علماء نے لکھا ہے کہ یہ حدیث بھی اوپر کی حدیث کی تشریح میں ذکر کردہ تاویلات پر محمول ہے۔ حدیث میں کذاب مبالغہ کے صیغہ کے ساتھ ذکر کرنا، اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اگر بتقاضائے بشریت کسی موقع پر مومن سے جھوٹ سرزد ہوجائے جیسا کہ بعض صورتوں میں دنیا کی کسی ناجائز غرض کے تحت نہیں بلکہ مصالح اور حکمت عملی کے پیش نظر جھوٹ بولنا بھی ضروری ہوجاتا ہے تو ایسی صورت مستثنی ہے اس کو ایمان کے منافی نہیں کہا جاسکتا۔ حضرت صفوان کا کچھ ذکر خیر اس موقع پر اس حدیث کے راوی حضرت صفوان کا کچھ ذکر خیر کردینا موزوں ہوگا یہ عظیم ہستی جن کا پورا نام صفوان ابن سلیم زہری ہے حضرت حمید بن عبدالرحمن ابن عوف کے آزاد کردہ غلام ان کا شمار مدینہ کے مشہور و ثقہ اور جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے حضرت انس بن مالک ؓ علیہ وغیرہ سے روایت حدیث کرتے ہیں اللہ کے صالح اور برگزیدہ بندوں میں سے تھے بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے چالیس سال تک اپنے پہلو کو زمین سے نہیں لگایا یہاں تک کہ وقت مرگ بھی بیٹھے رہے اور اسی حالت میں جان جا آفریں کے سپرد کی لوگ کہتے تھے کہ عبادت الٰہی اور سجدہ کی کثرت کی وجہ سے ان کی پیشانی میں سوراخ ہوگیا تھا قناعت خود داری کا یہ عالم تھا کہ باوجود احتیاج کے شاہی عطیات کو قبول نہیں کرتے تھے ان کے فضائل و مناقب بہت زیادہ ہیں۔ ١٣٢ ھ میں انتقال ہوا۔
Top