مسند امام احمد - - حدیث نمبر 4798
وعن عبد الرحمن بن أبي عقبة عن أبي عقبة وكان مولى من أهل فارس قال شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم أحدا فضربت رجلا من المشركين فقلت خذها مني وأنا الغلام الفارسي فالتفت إلي فقال هلا قلت خذها مني وأنا الغلام الأنصاري ؟ . رواه أبو داود
اپنے زمانہ جاہلیت کے کسی تعلق پر فخر نہ کرو
اور حضرت عبدالرحمن ابن ابوعقبہ حضرت ابوعقبہ سے نقل کرتے ہیں کہ جو کسی انصاری کے ایک فارس نثراز مولیٰ تھے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ کے ہمراہ میں بھی غزوہ احد میں شریک تھا چناچہ معرکہ آرائی کے دوران میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو (تلوار یا نیزہ کھینچ کر) مارا اور کہا کہ ایک وار میری طرف سے بھی کھا میں ایک فارسی غلام نثراد ہوں (جو دلیر اور بہت مار دینے والا ہے) رسول اللہ ﷺ نے میرا یہ جملہ سنا تو میری طرف متوجہ ہوگئے اور فرمایا کہ تم نے اس طرح کیوں نہیں کہا کہ لے میری طرف سے بھی ایک وار کھا میں ایک انصاری غلام ہوں۔ (ابوداؤد)

تشریح
ا نحضرت ﷺ کی تنبیہ کا مطلب یہ تھا کہ اس موقع پر اگر تم اپنی نسبت فارس کی طرف جو مذہبا مجوسی اور آتش پرست قوم ہے کرنے کی بجائے انصاری کی طرف کرتے جو بہت بہادر اور اللہ کے دین اور رسول اللہ کے حامی و مددگار ہیں تو زیادہ اچھا ہوتا اور اس وجہ سے بھی موزوں تھا کہ مولیٰ القوم منھم۔ (کسی قوم کے مولیٰ کا شمار اسی قوم میں ہوتا ہے) کے بموجب جب تمہارا تعلق ہی سے ہے۔ مولیٰ کی دو قسمیں ہیں ایک تو مولیٰ عتاقہ یعنی وہ غلام جس کو اس کے مالک نے آزاد کردیا ہو اور دوسرے یہ کہ وہ لوگ جن کا وطنی تعلق غیرب عرب علاقوں اور ملکوں میں ہوتا تھا اور اسلام قبول کرلیتے تھے اور ہجرت کر کے مدینہ منورہ آجاتے تھے وہ اپنے آپ کو مہاجرین و انصار کے اختیار میں رہتی تھی ان کے سیاہ وسفید وہی مالک و متصرف ہوتے تھے ایسے لوگوں کو مولیٰ الموالات کہا جاتا تھا حضرت ابوعقبہ ؓ صحابی جن کا اصل نام رشد تھا اسی طرح کے مولیٰ تھے کہ وہ اصلا فارس کے رہنے والے تھے اور جب انہوں نے اسلام قبول کیا اور اپنے ملک فارس سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگئے تو کسی انصاری کے زیر تربیت رہے اس حدیث کے روای حضرت عبدالرحمن انہی ابوعقبہ کے صاحبزادے ہیں اور ان کا شمار ثقہ تابعین میں ہوتا ہے۔
Top