مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 649
عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم حِےْنَ قَفَلَ مِنْ غَزْوَۃِ خَےْبَرَ سَارَ لَےْلَۃً حَتّٰی اِذَا اَدْرَکَہُ الْکَرٰی عَرَّسَ وَقَالَ لِبِلَالٍ اِکْلَأ لَنَا اللَّےْلَ فَصَلّٰی بِلَالٌ مَّا قُدِّرَ لَہُ وَنَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَصْحَابُہُ فَلَمَّا تَقَارَبَ الْفَجْرُ اسْتَنَدَ بِلَالٌ اِلٰی رَاحِلَتِہٖ مُوَجِّہَ الْفَجْرِ فَغَلَبَتْ بِلَالًا عَےْنَاہُ وَھُوَ مُسْتَنِدٌ اِلٰی رَاحِلَتِہٖ فَلَمْ ےَسْتَےْقِظْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلموَلَا بِلاَل ٌوَلَا اَحَدٌ مِّنْ اَصْحَابِہٖ حَتّٰی ضَرَبَتْھُمُ الشَّمْسُ فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَوَّلَھُمُ اسْتَےْقَاظًا فَفَزِعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اَیْ بِلَالُ فَقَالَ بِلَالٌ اَخَذَ بِنَفْسِی الَّذِیْ اَخَذَ بِنَفْسِکَ قَالَ اقْتَادُوْا فَاَقْتَادَوْا رَوَاحِلَھُمْ شَےْئًا ثُمَّ تَوَضَّأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَمَرَ بِلَالًا فَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ فَصَلّٰی بِہِمُ الصُّبْحَ فَلَمَّا قَضَی الصَّلٰوَۃَ قَالَ مَنْ نَسِیَ الصَّلٰوۃَ فَلْےُصَلِّھَا اِذَا ذَکَرَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَالَ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ۔(پ ١٦ رکوع ١٠) (صحیح مسلم)
اذان کا بعض احکام کا بیان
اور حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ جب غزوہ خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر سفر کرتے رہے یہاں تک کہ (جب) آپ ﷺ پر غنودگی طاری ہونے لگی تو آپ ﷺ آرام کرنے کے لئے آخر رات میں ایک جگہ اتر گئے اور حضرت بلال ؓ سے فرمایا کہ تم ہمارا خیال رکھنا (یعنی صبح ہوجائے تو ہمیں جگا دینا) یہ فرما کر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو سو گئے اور حضرت بلال ؓ نے (تہجد کی) نماز جس قدر ہوسکی پڑھی۔ جب صبح صادق ہونے کو ہوئی، تو حضرت بلال ؓ اپنے کجاوے سے تکیہ لگا کر فجر (مشرق) کی جانب منہ کر کے بیٹھ گئے (تاکہ صبح صادق ہوجائے تو رسول اللہ ﷺ حضرت بلال ؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی بھی بیدار نہ ہوا یہاں تک کہ جب ان کے اوپر دھوپ آگئی اور اس کی گرمی پہنچی) تو سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی آنکھ کھلی اور آپ ﷺ نے گھبرا کر فرمایا کہ بلال یہ کیا ہوا؟ حضرت بلال ؓ (بھی گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور انہوں نے عرض) کیا یا رسول اللہ ﷺ! مجھے بھی اس چیز نے پکڑ لیا جس نے آپ ﷺ کو پکڑ لیا تھا (یعنی نیند نے) آپ ﷺ نے فرمایا یہاں سے روانہ ہوجاؤ! چناچہ سب لوگ تھوڑی دور تک اپنی اپنی سواریاں لے کر چلے، پھر رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور حضرت بلال ؓ کو تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ چناچہ انہوں نے نماز کے لئے تکبیر کہی اور رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صبح کی نماز پڑھائی، جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا جو آدمی (نیند وغیرہ کی بناء پر) نماز پڑھنی بھول جائے تو یاد آتے ہی فوراً اسے پڑھ لے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ ) 20۔ طہ 14) یعنی میرے یاد کرنے کے وقت نماز پڑھ لو۔ (صحیح مسلم)

تشریح
خیبر مدینہ سے تقریباً سو میل کے فاصلے پر ہے، بنو نضیر کے یہودی جب مدینہ سے اجڑے تو خیبر جا بسے اور پھر خیبر یہودیوں کی سازشوں کا اڈا اور مرکز بن گیا۔ لہٰذا اسلام کی حفاظت کی خاطر اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ان کے اس شر انگیز ٹھانے کو توڑ دیا جائے چناچہ سات ہجری میں تقریباً سولہ سو مسلمان مجاہدین کا لشکر سرکار دو عالم ﷺ کی قیادت میں خیبر روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اس کا محاصرہ کرلیا گیا۔ یہ محاصرہ تقریباً دس روز تک جاری رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی اور خیبر کے تمام قلعوں پر قبضہ ہوگیا۔ اس غزوہ کی کامیابی کا سہرا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر رہا اور انہیں فاتح خبیر کے عظیم لقب سے نوازا گیا کہ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسلامی لشکر کا جھنڈا انہی کے ہاتھ دیا تھا۔ اور یہی اسلامی لشکر کے کمانڈکر رہے تھے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک خاص بہادری ظاہر کرائی کہ خیبر کا پھاٹک جو ستر آدمیوں سے بھی نہیں اٹھتا تھا انہوں نے تنہا اسے اکھاڑ پھینکا۔ جب فتح خیبر ہوگئی تو مسلمانوں اور وہاں کے یہودیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کی دو خاص دفعات یہ تھیں۔ (١) جب تک مسلماں چاہیں گے یہودیوں کو خیبر میں رہنے دیں گے اور جب نکالنا چاہیں گے تو ان کو خیبر سے نکلنا ہوگا۔ (٢) پیداوار کا ایک حصہ مسلمانوں کو دیا جائے گا۔ بہر حال۔ حدیث میں مذکورہ واقعہ اسی غزوے سے واپسی کے وقت پیش آیا تھا۔ اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طلوع آفتاب کے بعد جب آنکھ کھل گئی تھی تو اسی جگہ رسول اللہ ﷺ نے قضا نماز کیوں نہ پڑھ لی؟ اور صحابہ کرام ؓ کو وہاں سے روانہ ہونے کا حکم دینے کا سبب کیا تھا؟ چناچہ اس سلسلے میں علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں حنفی علماء جن کے نزدیک طلوع آفتاب کے وقت قضا نماز پڑھنا منع ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس جگہ سے کوچ کرنے کا حکم اس وجہ سے دیا تھا تاکہ آفتاب بلند ہوجائے اور نماز کے لئے وقت مکروہ نکل جائے۔ شافعی علماء جن کے ہاں طلوع آفتاب کے وقت قضاء پڑھنی جائز ہے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ وہاں سے قضا نماز پڑھے بغیر فوراً اس لئے روانہ ہوئے کہ وہ جگہ شیاطین کا مسکن تھی جیسا کہ دوسری روایتوں میں اس کی تصریح موجود ہے چناچہ صحیح مسلم ہی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ دھوپ پھیل جانے پر رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم دیا کہ ہر آدمی اپنی سواری کی عیال پکڑ لے (اور روانہ ہوجائے) اس لئے کہ اس جگہ ہمارے پاس شیطان آگیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو صرف تکبیر کہنے کا حکم دیا، اذان کے لئے نہیں فرمایا اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ قضاء نماز کے لئے اذان دینا ضروری نہیں ہے جیسا کہ قول جدید کے مطابق حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک یہی ہے۔ لیکن شافعی علماء کے نزدیک قول قدیم کے مطابق صحیح اور معتد مسلک یہی ہے کہ قضاء نماز کے لئے بھی اذان کہنی چاہئے۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت نماز کے لئے اذان کہی گئی تھی چناچہ ہدایہ میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لیلۃ التعریس (یعنی مذکورہ رات) کی صبح کو نماز فجر کی قضا اذان و تکبیر کے ساتھ پڑھی تھی۔ شیخ ابن الہمام (رح) نے اس سلسلے میں صحیح مسلم اور سنن ابوداؤد کی کئی حدیثیں نقل کی ہیں اور فرمایا ہے کہ صحیح مسلم کی اس روایت میں جو کچھ ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو تکبیر کہنے کا حکم دیا چناچہ انہوں نے تکبیر کہی۔ غر مرادف نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں صحیح طور پر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ آپ ﷺ نے اس وقت اذان و تکبیر کے ساتھ نماز پڑھی تھی، لہٰذا اس روایت میں فاقام الصلوۃ کے معنی یہ ہیں کہ چناچہ انہوں نے نماز کے لئے اذان کے بعد تکبیر کہی۔ یہاں ایک ہلکا سا خلجان اور پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل بیدار رہتا ہے۔ تو دل کے جاگتے رہنے کے باوجود اس کی کیا وجہ تھی کہ صبح صادق طلوع ہوجانے پر آپ ﷺ مطلع نہیں ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آفتاب کے طلوع و غروب کو دیکھنا آنکھوں کا کام ہے دل کا کام نہیں ہے لہٰذا دل کی بیداری کے باوجود صبح صادق کے طلوع ہوجانے پر آپ ﷺ اس لئے مطلع نہیں ہوئے کہ آپ ﷺ کی آنکھیں سو رہی تھی۔ اور اگر کوئی یہ سوال کے بیٹھے کہ آپ ﷺ کو کشف یا وحی کے ذریعہ اطلاع کیوں نہ دی گئی؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف تھا، نیز اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ اس طریقے سے امت کو قضا کے احکام معلوم ہوگئے۔
Top