مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 666
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم سَبْعَۃٌ ےُظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ ےَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہُ اِمَامٌ عَادِلٌ وَّشَآبٌّ نَشَأَ فِیْ عِبَادَۃِ اللّٰہِ وَرَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ بِالْمَسْجِدِ اِذَا خَرَجَ مِنْہُ حَتّٰی ےَعُوْدَ اِلَےْہِ وَرَجُلَانِ تَحَآبَّا فِی اللّٰہِ اجْتَمَعَا عَلَےْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَےْہِ وَرَجُلٌ ذَکَرَاللّٰہَ خَالِےًا فَفَاضَتْ عَےْنَاہُ وَرَجُلٌ دَعَتْہُ اِمْرَاَۃٌ ذَاتُ حَسَبٍ وَّجَمَالٍ فَقَالَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَاَخْفَاھَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہ& مَا تُنْفِقُ ےَمِےْنُہ&۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا سات آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اس روز (یعنی قیامت کے دن) اپنے سائے میں رکھے گا جس روز اللہ کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (١) انصاف کرنے والا حاکم۔ (٢) وہ جوان جو اپنی جوانی کو اللہ کی محبت میں صرف کر دے۔ (٣) وہ آدمی جو مسجد سے نکلتا ہے تو جب تک وہ دوبارہ مسجد میں نہیں چلا جاتا اس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے۔ (٤) وہ دو آدمی جو محض اللہ کے لئے آپس میں محبت رکھتے ہیں اگر یکجا ہوتے ہیں تو اللہ کی عبادت میں اور جدا ہوتے ہیں تو اللہ کی محبت میں یعنی حاضر و غائب خالص لوجہ اللہ محبت رکھتے ہیں۔ (٥) وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرتا ہے اور (خوف اللہ سے) اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ (٦) وہ آدمی جس کو کسی شریف النسب اور حسین عورت نے (برے ارادے سے) بلایا اور اس نے (اس کی خواہش کے جواب میں) کہہ دیا ہو کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (٧) وہ آدمی جس نے اس طرح مخفی طور پر صدقہ دیا ہو کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہ معلوم ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
یہاں ان سات قسم کے خوش نصیب شخص کی وضاحت کی گئی ہے جو اپنے اعمال و کردار کی بناء پر قیامت کی روز میدان حشر میں اللہ کے سائے میں ہوں گے یعنی رب قدوس ان لوگوں کو اپنے دامن رحمت میں جگہ دے گا اور انہیں آخرت کی سختیوں سے بچائے گا۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ سایہ الٰہی سے مراد عرش کا سایہ ہے۔ یعنی قیامت کے روز جب کہ تمام لوگ پریشان و حیران ہوں گے تو یہ سات قسم کے لوگ عرش کے سائے میں رحمت الٰہی کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوں گے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ سا تو اں آدمی وہ جو اللہ کی راہ میں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنا مال اتنی پوشیدگی سے خرچ کرتا ہے کہ جب وہ اپنے دائیں طرف کے آدمی کو کوئی چیز یعنی روپیہ پیسہ یا مال وغیرہ دیتا ہے تو اس کے بائیں طرف بیٹھے ہوئے آدمی کو بھی اس کی خبر نہیں ہوتی اور اس طرح اس کے چھپانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کہیں ریا اور نمائش کا جذبہ نہ پیدا ہوجائے جس کی وجہ سے ثواب سے محرومی رہے۔ بعض علماء نے اس کے حقیقی معنی ہی مراد لئے ہیں یعنی وہ آدمی اتنے مخفی طریقے سے صدقہ و خیرات کرتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ دائیں ہاتھ نے کس کو کیا دیا ہے؟ اس صورت میں یہ جملہ کمال پوشیدگی کے لئے کنایہ ہوگا۔
Top