مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 680
وَعَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِیٍّ قَالَ خَرَجْنَا وَفْدًا اِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَبَا یَعْنَاہُ وَصَلَّیْنَا مَعَہ، وَاَخْبَرْنَاہُ اَنَّ بَاَرْضِنَا بَیْعَۃً لَنَا فَاسْتَوْ حَبْنَاہُ مِنْ فَضْلِ طَھُوْرِہٖ فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَّضَأَ وَتَمَضْمَضَ ثُمَّ صَبَّہُ لَنَافِی اِدَاوَۃٍ وَاَمَرْنَا فَقَالَ اخْرُ جُوْ افَاِذَا اَتَیْتُمْ اَرْضَکُمْ فَاَکْسِرُوْ ابَیْعَتَکُمْ وَانَضَحُوْا مَکَانَھَا بِھٰذَالْمَآءِ وَاتَّخِذُوْ ھَا مَسْجِدًا قُلْنَا اِنَّ لْبَلَدَ بَعِیْدٌ وَالْحَرُّ شَدِیْدٌ وَالْمَآءُ یُنْشَفُ فَقَالَ مُدُّوْہ، مِنَ الْمَآءِ فَاِنَّہُ لَا یَزِیْدُہُ اِلَّا طِیْبًا۔ (رواہ النسائی )
مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان
اور حضرت طلق ابن علی ؓ فرماتے ہیں کہ ہم ایک جماعت کی شکل میں سرور کائنات ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم سب نے آپ ﷺ سے (اسلام کی) بیعت کر کے آپ ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی اور پھر یہ بھی عرض کردیا کہ ہماری سر زمین پر ہمارا ایک گرجا بنا ہوا ہے (اس کو کیا کریں) اس کے بعد ہم نے آپ ﷺ کے وضو کا بچا ہوا پانی مانگا۔ آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور وضو کیا اور (وضو کے بعد بقیہ پانی سے) کلی کی اور اس کلی کا پانی ہماری چھاگل میں ڈال دیا اور فرمایا کہ جاؤ! جب تم اپنے ملک میں پہنچو تو اس گرجے کو توڑ کر اس کی جگہ یہ پانی چھڑک دینا (تاکہ دین و اسلام کے انوار و برکات وہاں پھیل جائیں) اور پھر وہاں مسجد بنا لینا۔ ہم نے عرض کیا کہ ہمارا شہر تو بہت دور ہے اور گرمی سخت ہے لہٰذا یہ پانی (وہاں پہنچتے پہنچتے) خشک ہوجائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس میں اور پانی ملا لینا اس سے اس کی پاکیزگی و برکت ہی میں اضافہ ہوگا۔ (سنن نسائی )

تشریح
(بیعۃ) نصاری کے عبادت خانے کو کہتے ہیں جسے ہمارے ہاں گرجا کہا جاتا ہے۔ یہ حضرات جو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف باسلام ہوئے تھے نصاری قوم سے تھے چناچہ جب یہ لوگ ایمان و اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہوگئے تو ان کی خواہش ہوئی کہ اپنے گرجے کو جو پہلے مذہب کی یادگار عبادت گاہ ہے توڑ ڈالیں اور اس جگہ برکت حاصل کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کے وضو کا بچا ہوا دھان مقدس سے نکلا ہوا متبرک پانی چھڑک ڈالیں تاکہ اس جگہ ایک دوسرے مذہب کی عبادت گاہ ہونے کی وجہ سے وہاں کفر و شرک کے جو جراثیم پیداہو گئے ہیں وہ اس پانی کی برکت سے ختم ہوجائیں اور وہاں دین اسلام کے فیوض و برکات پھیل جائیں۔ چناچہ لفظ فاستوہبناہ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر دھوپ و گرمی کی شدت اور طویل مسافت کی وجہ سے یہ پانی خشک ہونے لگے اور تمہیں اس بات کا خدشہ ہو کہ منزل مقصود تک پہنچے پہنچتے یہ پانی بالکل ہی خشک ہوجائے گا تو اس پانی میں دوسرا پانی ملا لینا لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ اور پانی ملا لینے سے اس پانی کی برکت و فضیلت ختم ہوگئی ہے یا کم ہوگئی ہے بلکہ یہ تو پہلا پانی جو چھاگل میں تھا بعد میں ڈالے جانے والے اس پانی میں خیر و برکت کی زیادتی کرے گا یا پھر بعد میں ڈالے جانے والے اس دوسرے پانی میں منجاب اللہ یہ شرف و فضیلت پیدا ہوجائے گی کہ اس پانی کی وجہ سے چھاگل میں موجود پہلے پانی میں مزید خیر و برکت ہوجائے گی اور حاصل یہ کہ مزید پانی ملا لینے سے خیر و برکت زیادہ ہی ہوگی کم نہ ہوگی یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آب زم زم کو باعث خیر و برکت جاننا اور پھر اسے بطور تبرک دوسری جگہ لے جانا جائز ہے۔ نیز اس پر قیاس کیا جاتا ہے کہ علماء و مشائخ اور اولیاء اللہ کے استعمال کردہ کھانے اور پانی یا ان کے بدن کے اترے ہوئے کپڑوں کو خیر و برکت کا باعث جاننا اور انہیں متبرک سمجھ کر استعمال کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں حدود شرع سے تجاوز نہ ہو یعنی ان چیزوں کو متبرک و مقدس سمجھ کر ان کی حدیث سے زیادہ تعظیم و تکریم یا نعوذ باللہ ان کی پرستش نہ ہونے لگے۔
Top