مشکوٰۃ المصابیح - اعتکاف کا بیان - حدیث نمبر 2107
وعن ابن عباس قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم أجود الناس بالخير وكان أجود ما يكون في رمضان وكان جبريل يلقاه كل ليلة في رمضان يعرض عليه النبي صلى الله عليه و سلم القرآن فإذا لقيه جبريل كان أجود بالخير من الريح المرسلة
رمضان میں خیر وبھلائی میں اضافہ فرماتے
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ تمام لوگوں میں خیر و بھلائی کے معاملہ میں بہت سخی تھے اور خصوصا رمضان میں تو بہت سخاوت کرتے تھے رمضان کی ہر شب میں حضرت جبرائیل آنحضرت ﷺ کے پاس آتے اور آپ ﷺ ان کے سامنے تجوید کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے چناچہ حضرت جبرائیل سے ملاقات کے وقت آپ ﷺ کی سخاوت ہوا کے جھونکوں سے بھی بڑھ جاتی تھی۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اجود الناس بالخیر کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ مخلوق اللہ کو اوروں کی بہ نسب نہت زیادہ نفع پہنچاتے تھے اور لوگوں کے ساتھ بہت زیادہ بھلائی کرتے تھے خاص طور پر رمضان کے مقدس ماہ آپ ﷺ کا یہ وصف معمول سے بھی زیادہ عروج پر ہوتا تھا کیونکہ یہ ماہ ایام برکت ہیں ان میں نیکی اور دنوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ اجر وثواب سے نوازی جاتی ہیں۔ ہوا کے جھونکوں، سے مراد وہ ہوا ہے جو بارش اور مینہ لے کر آتی ہے اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ بارش لانے والی ہوا کا نفع عام ہوتا ہے اور بہت ہوتا ہے مگر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی ملاقات کے وقت دوسروں کو نفع پہنچانے اور دوسروں کو بھلائی کا آپ ﷺ کا جذبہ اور آپ کا عمل اس ہوا سے بھی بڑھ جاتا تھا گویا یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ بابرکت اور افضل اوقات میں نیز مقدس و نیک لوگوں کو صحبت کے وقت انسان کو خیر و بھلائی کرنے میں زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔ بظاہر یہ حدیث باب الاعتکاف سے متعلق نظر نہیں آتی لیکن اس باب میں اس حدیث کو اس لئے نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ رمضان میں اعتکاف بھی کرتے تھے جو ایک بڑے درجہ کی نیکی ہے اور اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ آپ ﷺ رمضان میں بہت زیادہ نیکی و بھلائی کرتے تھے۔
Top