مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 112
وَعَنْ نَّافِعِ اَنَّ رَجُلًا اَتَی ابْنَ عُمَرَ قَالَ اِنَّ فُلاَنًا یُقْرَأُ عَلَیْکَ السَّلَامَ فَقَالَ اِنَّہ، بَلَغَنِیْۤ اَنَّہ، قَدْ اَحْدَثَ فَاِنْ کَانَ قَدْ اَحْدَثَ فَلَا تُقْرِئْہ، مِنِّی السَّلَامَ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ یَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْ اَوْفِیْ ھٰذِہِ الاُمَّۃِ خَسْفٌ وَّمَسْخُ اَوْ قَذْفٌ فِیْۤ اَھْلِ الْقَدْرِ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَ اَبُوْدَاؤدَ وَابْنُ مَاجَۃَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ غَرِیْبٌ۔
تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
اور حضرت نافع ؓ ( حضرت نافع کا شمار جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے ١١٠ ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے)۔ کی روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ فلاں آدمی نے آپ کو سلام کہا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ نے فرمایا۔ مجھے معلوم ہے کہ اس آدمی نے دین میں (کوئی) نئی بات نکالی ہے اگر واقعی اس نے دین میں (کوئی) نئی بات پیدا کی ہے۔ تو میری طرف سے (جواب میں) اسے سلام نہ پہنچاؤ، اس لئے کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں سے یا یہ فرمایا کہ اس امت میں سے (اللہ کے درد ناک عذاب زمین میں دھنس جانا اور صورت کا مسخ ہوجانا یا سنگساری اہل قدر) (یعنی تقدیر کا انکار کرنے والوں) پر ہوگا۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح و غریب ہے۔

تشریح
آنے والے نے حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ تک جس آدمی کا سلام پہنچایا تھا اس کے بارے میں حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کو معلوم ہوا ہوگا کہ اس نے اپنی طرف سے دین میں نئی باتیں پیدا کی ہیں یعنی وہ تقدیر کا انکار کرتا ہے۔ لہٰذا حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ اس کے سلام کے جواب میں میرا سلام اس تک نہ پہنچانا کیونکہ ہمیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ہم ایسے لوگوں سے سلام کلام نہ کریں اور نہ ان سے تعلقات قائم کریں جو بدعتی ہوں اور خدا، اللہ کے رسول کے قائم کی ہوئی حدود سے تجاوز کرتے ہوں۔ چنانچہ علماء اسی حدیث کی بنا پر اس بات کا حکم لگاتے ہیں کہ فاسق و فاجر و اہل بدعت کے سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے بلکہ سنت بھی نہیں ہے اور چونکہ ان کے ساتھ یہ معاملہ ان کی تنبیہ کے لئے ہے اس لئے ان سے ترک ملاقات بھی جائز ہے
Top