مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 6
وعن أنس رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين
درجات محبت
اور حضرت انس بن مالک ( حضرت انس بن مالک بن نضر انصاری ہیں اور مدینہ کے اصل باشندے تھے۔ آپ کی عمر جب دس سال کی تھی تو آپ کی والدہ ام سلیم بنت ملحان نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ ٩٦ ھ میں انتقال فرمایا)۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک (کامل) مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
محبت ایک تو طبعی ہوتی ہے جیسے اولاد کو باپ کی یا باپ کو اولاد کی محبت۔ اس محبت کی بنیاد طبعی وابستگی و پسند اور فطری تقاضہ ہوتا ہے۔ اس میں عقلی یا خارجی ضرورت اور دباؤ کا دخل نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف ایک محبت عقلی ہوتی ہے جو کسی طبعی و فطری وابستگی اور تقاضے کے تحت نہیں ہوتی۔ بلکہ کسی عقلی ضرورت و مناسبت اور خارجی وابستگی کے تحت کی جاتی ہے۔ اس کی مثال مریض اور دوا ہے یعنی بیمار آدمی دوا کو اس لئے پسند نہیں کرتا کہ دوا لینا اس کا طبعی اور فطری تقاضہ ہے بلکہ یہ دراصل عقل کا تقاضا ہوتا ہے کہ اگر بیماری کو ختم کرنا ہے اور صحت عزیز ہے تو دوا استعمال کرنی ہوگی خواہ اس دوا کی تلخی اور کڑواہٹ کا طبیعت پر کتنا ہی بار کیوں نہ ہو، اسی طرح اگر کسی آدمی کے جسم کا کوئی حصہ پھوڑے پھنسی کے فاسد مادہ سے بھر گیا ہو تو وہ آپریشن کے لئے اپنے آپ کو کسی ماہر جراح اور سرجن کے حوالہ اس لئے نہیں کرتا کہ اس کی نظر میں آلات جراحی کی چمک دمک اچھی لگتی ہے یا اس کی طبیعت اپنے جسم کے اس حصہ پر نشتر زنی کو پسند کرتی ہے، بلکہ یہ عقل و دانائی کا تقاضا ہوتا ہے کہ اگر جسم کو فاسد مادہ سے صاف کرنا ہے تو خود کو اس جراح یا سرجن کے حوالے کردینا ضروری ہے۔ کسی چیز کو عقلی طور پر چاہنے اور پسند کرنے کی وہ کیفیت جس کو عقلی محبت سے تعبیر کرتے ہیں، بعض حالات میں اتنی شدید، اتنی گہری اور اتنی اہم بن جاتی ہے کہ بڑی سے بڑی طبعی محبت اور بڑے سے بڑے فطری تقاضے پر بھی غالب آجاتی ہے۔ پس یہ حدیث ذات رسالت سے جس محبت اور وا بستگی کا مطالبہ کر رہی ہے وہ علماء و محدثین کے نزدیک یہی عقلی محبت ہے لیکن کمال ایمان و یقین کی بنا پر یہ عقلی محبت اتنی پر اثر، اتنی بھر پور اور اس کی قدر جذباتی وابستگی کے ساتھ ہو کہ طبعی محبت پر غالب آجائے۔ اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کی کسی ہدایت اور کسی شرعی حکم کی تعمیل میں کوئی خونی رشتہ جیسے باپ کی محبت، اولاد کا پیار یا کوئی بھی اور طبعی تعلق رکاوٹ ڈالے تو اس ہدایت رسول اور شرعی حکم کو پورا کرنے کے لئے اس خون کے رشتے اور طبعی تقاضا و محبت کو بالکل نظر انداز کردینا چاہیے، ایمانیات اور شریعت کے نقطہ نظر سے بہت بڑا مقام ہے اور یہ مقام اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب ایمان و اسلام اور حب رسول ﷺ کا دعوی کرنے والا اپنے نفس کو احکام شریعت اور ذات رسالت میں فنا کر دے اور اللہ کے رسول ﷺ کی رضا و خوشنودی کے علاوہ اس کا اور کوئی مقصد حیات نہ ہو۔ مثال کے طور پر رسول اللہ ﷺ کا فرمان جاری ہوتا ہے کہ اہل ایمان جہاد کے لئے نکلیں، اس حکم کی تعمیل میں اہل ایمان، دشمنان دین سے لڑنے کے لئے میدان جنگ میں پہنچتے ہیں۔ جب دونوں طرف سے صف آرائی ہوتی ہے اور حریف فوجیں آمنے سامنے آتی ہیں تو کسی مسلمان کو اپنا لڑکا دشمن کی صف میں نظر آتا ہے اور کسی کو اپنا باپ۔ اب ایک طرف تو وہ طبعی محبت ہے، جو کیسے گوارا کرلے کہ اس کی تلوار اپنے باپ یا اپنی ہی اولاد کے خون سے رنگی جائے، دوسری طرف حکم رسول ہے کہ دشمن کا کوئی بھی فرد تلوار کی زد سے امان نہ پائے چاہے وہ اپنا باپ یا بیٹا کیوں نہ ہو، تاریخ کی ناقابل تردید صداقت گواہی دیتی ہے کہ ایسے نازک موقع پر اہل ایمان پل بھر کے لئے بھی ذہنی کشمکش میں مبتلا نہیں ہوتے، ان کو یہ فیصلہ کرلینے میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں ہوتی کہ حکم رسول ﷺ کے سامنے نہ باپ کی محبت کوئی معنی رکھتی ہے نہ اولاد کی۔ اور پھر میدان جنگ میں باپ کی تلوار بےدریغ اپنی اولاد کا خون بہاتی نظر آتی ہے اور بیٹا اپنے باپ کو موقع نہیں دیتا کہ بچ کر نکل جائے۔ بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ تکمیل ایمان کا مدار حب رسول پر ہے جس آدمی میں ذات رسالت سے اس درجہ کی محبت نہ ہو کہ اس کے مقابلہ پر دنیا کے بڑے سے بڑے رشتے، بڑے سے بڑے تعلق اور بڑی سے بڑی چیز کی محبت و چاہت بھی بےمعنی ہو، وہ کامل مسلمان نہیں ہوسکتا، اگرچہ زبان اور قول سے وہ اپنے ایمان و اسلام کا کتنا ہی بڑا دعوی کرے۔ حضرت عمر فاروق کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے جب یہ حدیث سنی تو عرض کیا یا رسول اللہ! دنیا میں صرف اپنی جان کے علاوہ آپ ﷺ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں یعنی دنیا کے اور تمام رشتوں اور چیزوں سے زیادہ میں آپ ﷺ کی محبت رکھتا ہوں مگر اپنی جان سے زیادہ نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میری جان ہے تم اب بھی کامل مومن نہیں ہوئے اس لئے کہ یہ مرتبہ اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب کہ میں تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا ہوجاؤں۔ ان الفاظ نبوت نے جیسے آن واحد میں حضرت عمر فاروق کے دل و دماغ کی دنیا تبدیل کردی ہو، وہ بےاختیار بولے۔ یا رسول اللہ! آپ ﷺ پر میری جان قربان آپ ﷺ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے پھر ان کو خوشخبری سنائی کہ اے عمر! اب تمہارا ایمان کامل ہوا اور تم پکے مومن ہوگئے۔ اور صرف عمر فاروق ہی نہیں، تمام صحابہ اسی کیفیت سے معمور اور حب رسول سے سرشار تھے، ان کی زندگیوں کا مقصد ہی آپ ﷺ کے ایک اشارہ ابرو پر اپنی جانوں کو نچھاور کردینا تھا، بلا شبہ دنیا کا کوئی مذہب اپنے راہنما اور پیروؤں کے باہمی تعلق اور محبت کی ایسی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس بلا شک صحابہ کے لئے شمع کی سی تھی جس پر وہ پروانہ وار نچھاور ہونا ہی اپنی سعادت و خوش بختی تصور کیا کرتے تھے۔ اسلام کے اس دور کی شاندار تاریخ اپنے دامن میں بیشمار ایسے واقعات چھپائے ہوئے ہے جو رسول اکرم ﷺ سے صحابہ کرام اجمعین کی جذباتی وابستگی اور والہانہ محبت وتعلق کی شاندار غمازی کرتے ہیں۔ غزوہ احد کا واقعہ ہے۔ میدان جنگ میں جب معرکہ کار زار گرم ہوا اور حق کی مٹھی بھر جماعت پر باطل کے لشکر جرار نے پوری قوت اور طاقت سے حملہ کیا تو دیکھا گیا ہے کہ ایک انصاری عورت کے شوہر، باپ اور بھائی تینوں نے جام شہادت پیا اور رسول اکرم ﷺ کی ذات پر دیوانہ وار فدا ہوگئے، یہ دل دہلا دینے والی خبر اس عورت کو بھی پہنچائی گئی مگر اللہ پر ایمان کی پختگی اور رسول اکرم ﷺ کی محبت کا اثر کہ بجائے اس کے کہ وہ عورت اپنے لواحقین کی شہادت پر نالہ و شیون اور ماتم و فریاد کرتی اس نے سب سے پہلے سوال کیا خدارا مجھے یہ بتاؤ کہ میرے آقا اور سردار رسول اللہ ﷺ (آپ ﷺ پر میری جان قربان) تو بخیر ہیں؟۔ لوگوں نے کہا۔ ہاں آپ ﷺ سلامت ہیں مگر اس سے اس کی تسکین نہ ہوئی اور بےتابانہ کہنے لگی اچھا چلو! میں اپنی آنکھوں سے دیدار کرلوں تو یقین ہوگا اور جب اس نے اپنی آنکھوں سے چہرہ انور کی زیارت کرلی تو بولی کل مصیبۃ بعدک جلل۔ جب آپ زندہ سلامت ہیں تو ہر مصیبت آسان ہے۔ ایک مرتبہ ایک آدمی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! آپ ﷺ مجھے اپنے اہل و عیال اور مال سب سے زیادہ محبوب ہیں، مجھے آپ ﷺ کی یاد آتی ہے تو صبر نہیں آتا جب تک کہ یہاں آکر آپ ﷺ کے روئے انور کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی نہیں کرلیتا۔ مگر اب تو یہی غم کھائے جاتا ہے کہ وفات کے بعد آپ ﷺ تو انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ہوں گے، وہاں میری آنکھیں آپ ﷺ کا دیدار کیسے کرسکیں گی۔ جب ہی یہ آیت نازل ہوئی ومَنْ یُطِعِ ا وَالرَّسُوْلَ فَأُوْلٰائکِ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ ا عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُوْلٰائِکَ رَفِیْقًا۔ (النساء ٦٩) جو لوگ اللہ و رسول کا کہنا مانتے ہیں وہ (آخرت میں) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام ہیں یعنی نبی، صدیق، شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی صحبت بڑی غنیمت ہے۔ آپ ﷺ نے اس صحابی کو یہ خوشخبری سنا دی۔ عبداللہ بن زید بن عبدربہ جو صاحب اذان کے لقب سے مشہور تھے اپنے باغ میں کام کر رہے تھے کہ اسی حالت میں ان کے صاحبزادہ نے آکر پریشانی والی خبر سنائی کہ سرور دو عالم ﷺ وصال فرماگئے۔ عشق نبوی سے سر شار اور محبت رسول سے سر مست، یہ صحابی اس جان گداز خبر کی تاب ضبط نہ لاسکے، بےتابانہ ہاتھ فضا میں بلند ہوئے اور زبان سے یہ حسرت ناک الفاظ نکلے خداوندا اب مجھے بینائی کی دولت سے محروم کر دے تاکہ یہ آنکھیں جو سرکار دو عالم ﷺ کے دیدار سے مشرف ومنور ہوا کرتی تھیں اب کسی دوسرے کو نہ دیکھ سکیں (ترجمہ السنۃ)۔ ان واقعات سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو رسول اللہ ﷺ سے محبت وتعلق کا وہی مقام حاصل تھا جو اس حدیث کا منشاء ہے اس لئے ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اگر وہ ایمان کی سلامتی اور اپنے اسلام میں مضبوطی پیدا کرنا چاہتا ہے تو رسول اللہ ﷺ کی محبت و عقیدت سے اپنے دل کو معمور کرے اور آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے ہی کو مدار نجات جانے کہ رسول اللہ ﷺ سے محبت کا معیار اتباع شریعت اور اتباع رسول ہے جو آدمی شریعت پر عمل نہیں کرتا اور آپ ﷺ کی تعلیمات پر نہیں چلتا، وہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ نعوذ باللہ اسے حضور ﷺ سے محبت نہیں ہے۔
Top