مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 74
وَعَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ اَنَّ رَجُلًا سَأَلَہ، فَقَالَ اِنِّیْ اَھِمُ فِیْ صَلَاتِیْ فَیَکْبُرُ ذٰلِکَ عَلَیَّ فَقَالَ لَہ، اِمْضِ فِیْ صَلَاتِکَ فَاِنَّہ، لَنْ یَذْھَبَ ذٰلِکَ عَنْکَ حَتّٰی تَنْصَرِفَ وَاَنْتَ تَقُوْلُ مَا اَتْمَمْتُ صَلَاتِیْ۔ (رواہ موطا امام مالک)
وہم اور سوسہ کو نظر انداز کر کے اپنی نماز جاری رکھو
اور حضرت قاسم بن محمد ( آپ حضرت ابوبکر صدیق کے پوتے اور محمد بن ابوبکر صدیق کے صاحب زادے ہیں، مدینہ کے سات مشہور فقہاء میں سے ایک آپ بھی ہیں اکابر اور جلیل القدر تابعین میں آپ کا شمار ہوتا ہے یحییٰ بن سعید کا قول ہے کہ ہم نے مدینہ میں قاسم بن محمد سے زیادہ افضل کسی کو نہیں پایا بعمر ٧٠ سال ١٠١ ھ میں آپ کا انتقال ہوا)۔ سے ایک آدمی نے عرض کیا کہ مجھے اپنی نماز میں وہم ہوتا رہتا ہے (یعنی کبھی تو یہ شک ہوتا ہے کہ میری نماز درست ادا نہیں ہوئی کبھی یہ وہم ہوجاتا ہے کہ ایک رکعت پڑھنے سے رہ گئی ہے) اس کی وجہ سے مجھے گرانی ہوتی ہے؟ انہوں نے فرمایا (تم اس طرح کے خیال پر دھیان نہ دو اور) اپنی نماز پوری کرو، اس لئے کہ وہ (شیطان) تم سے جب ہی دور ہوگا کہ تم اپنی نماز پوری کرلو اور کہو کہ ہاں میں نے اپنی نماز پوری نہیں کی۔ (مالک)

تشریح
نماز ہی وہ سب سے اہم عبادت ہے جس میں اللہ کے نیک بندوں کا بہکانے اور ورغلانے کے لئے شیطان اپنی سعی و کوشش سب سے زیادہ صرف کرتا ہے یہ شیطان کی تخریب کاری ہوتی ہے۔ جو عام لوگوں کو نماز کے دوران پوری ذہنی یکسوئی سے محروم رکھتی ہے اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نماز کی نیت باندھتے ہیں دل و دماغ میں دنیا بھر کے خیالات کا اجتماع ہونا شروع ہوجاتا ہے وہ باتیں جو کبھی یاد نہیں آتیں نماز ہی کے دوران ذہن میں کلبلانے لگتی ہیں۔ شیطان طرح طرح کے وسوسے اور خیالات پیدا کرتا رہتا ہے، کبھی تو یہ پھونک دیتا ہے کہ نماز مکمل نہیں ہوئی ہے بلکہ ایک رکعت یا دو رکعت چھوٹ گئی ہے، کبھی یہ وہم گزار دیتا ہے کہ نماز صحیح نہیں ہوئی ہے۔ فلاں رکن ترک ہوگیا ہے۔ قرأت میں فلاں آیت چھوٹ گئی ہے۔ اس وسوسہ اندازی سے شیطان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی نماز کا سلسہ منقطع کر دے اور نیت توڑ دے شیطان کی اس تخریب کاری سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب شیطانی اثر سے اس طرح کے واہمے اور شکوک پیدا ہوں تو اپنی نماز کا سلسلہ منقطع نہ کرو، نیت نہ توڑو، بلکہ نماز پوری کرو اور شیطان سے کہو کہ ہاں میں غلطی کر رہا ہوں، نماز میری درست نہیں ہو رہی ہے لیکن میں نماز پڑھوں گا اور تیرے کہنے پر عمل نہیں کروں گا۔ علماء لکھتے ہیں کہ یہ طریقہ شیطانی اثرات سے محفوظ رہنے کے لئے بہت ہی کارگر ہے۔ اس لئے کہ اس طرح شیطان نمازی سے مایوس ہوجاتا ہے اور جب وہ یہ جان لیتا ہے کہ یہ میرے قبضے میں آنے والا نہیں ہے تو اس کے پاس سے ہٹ جاتا ہے۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب کہ نمازی کو یقین ہے کہ میں نماز ٹھیک پڑھ رہا ہوں، نماز کے ارکان و افعال اور قرأت میں کوئی کوتاہی یا غلطی واقع نہیں ہو رہی ہے اور اگر واقعی اس کی نماز میں کوئی کوتاہی واقع ہو رہی ہے یا ارکان کی ادائیگی میں غلطی ہو رہی ہے اور اس کا احساس ہو رہا ہے تو اس غلطی و کوتاہی کو دور کرنا اور نماز کی صحت و درستی کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے۔ دراصل اس حکم ( کہ شیطانی خلل اندازی سے صرف نظر کر کے اپنی پوری کرو) کا بنیادی مقصد اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ شیطان سے چوکنا رہو، اس کو اثر انداز ہونے کا موقع نہ دو اپنے دل و دماغ کو اتنا پاکیزہ اور مجلی رکھو کہ شیطانی وسوسوں اور واہموں کو راہ نہ ملے۔ نماز اس قدر ذہنی یکسوئی توجہ اور حضور قلب کے ساتھ پڑھو کہ شیطان تمہارے پاس آنے کا ارادہ ہی نہ کرے اس حکم کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ غیر درست عمل کو درست نہ کرو اور سہل انگاری دکھاؤ۔
Top