مشکوٰۃ المصابیح - بیع سلم کا بیان ۔ - حدیث نمبر 2919
وعن عائشة قالت : اشترى رسول الله صلى الله عليه و سلم طعاما من يهودي إلى أجل ورهنه درعا له من حديد (2/150) 2885 - [ 3 ] ( صحيح ) وعنها قالت : توفي رسول الله صلى الله عليه و سلم ودرعه مرهونة عند يهودي بثلاثين صاعا من شعير . رواه البخاري
ادھارخریدنا اور گروی رکھناجائز ہے
اور حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے کچھ غلہ ایک متعین مدت کے ادھار پر خریدا اور اپنے لوہے کی زرہ اس کے پاس گروی رکھی (بخاری ومسلم)

تشریح
اس حدیث سے چند مسائل معلوم ہوئے اول یہ کہ کوئی چیز ادھار قیمت پر خریدنا اور اس ادھار قیمت کے بدلے اپنی کوئی چیز رہن رکھنا جائز ہے دوم یہ کہ سفر کے علاوہ حضر یعنی اپنے شہر ومسکن میں بھی رہن رکھنا جائز ہے اگرچہ قرآن کریم نے جس آیت میں رہن رکھنے کی اجازت دی ہے اس میں سفر کی قید ہے اور وہ آیت یہ ہے (وَاِنْ كُنْتُمْ عَلٰي سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا كَاتِبًا فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ) 2۔ البقرۃ 283) یعنی اگر تم کہیں سفر میں ہو اور وہاں دستاویز لکھنے کے لئے کوئی کاتب نہ پاؤ تو اطمینان کا ذریعہ رہن رکھنے کی چیزیں ہیں جو صاحب حق کے قبضہ میں دیدی جائیں۔ چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ اس آیت میں سفر کی قید اتفاقی ہے رہن رکھنا جس طرح سفر میں جائز ہے اسی طرح حضر میں بھی جائز ہے اور سوم یہ کہ اہل ذمہ اسلامی سلطنت میں جزیہ دے کر رہنے والے اہل کتاب جیسے یہود و نصاری کے ساتھ معاملات کرنے جائز ہیں چناچہ تمام علماء کا بالاتفاق یہ مسلک ہے کہ اہل ذمہ اور کفار سے خریدو فروخت کا معاملہ کرنا جائز ہے بشرطیکہ ان کے پاس جو مال ہے اس کا حرام نہ ہونا ثابت و معلوم ہو لیکن اہل حرب کے ساتھ مسلمانوں کا ہتھیار یا سامان جنگ بیچنا جائز نہیں ہے اسی طرح مطلقًا کسی بھی کافر کے ہاتھ ایسی کوئی چیز بیچنی جائز نہیں ہے جو اس کے دین و مذہب کی تقویت کا باعث ہو نیز کفار کے ہاتھ مسلمانوں کا مصحف شریف (قرآن کریم) اور غلام بیچنا بھی جائز نہیں ہے۔ علامہ نووی کہتے ہیں کہ یہ حدیث بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ دنیا کا مال و اسباب نہیں رکھتے تھے اور یہ تنگ دستی وقلت مال آپ کی شان استغناء توکل علی اللہ اور مال و زر سے آپ کی کلیۃً بےرغبتی کی ایک واضح مثال ہے۔ اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اہل ذمہ کے پاس مسلمانوں کا سامان جنگ گروی رکھنا جائز ہے نیز آپ ﷺ کے اس عمل یعنی گروی رکھنے کا یہ معاملہ آپ ﷺ نے ایک یہودی سے کیا صحابہ سے نہیں کیا کے بارے میں بعض علماء تو یہ کہتے ہیں کہ یہ شاہد بیان جواز کی خاطر تھا یعنی اپنے اس عمل کے ذریعہ آپ ﷺ نے یہ واضح کیا کہ اہل ذمہ کے ساتھ بھی اپنے معاملے کرنا جائز ہے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے یہودی کے ساتھ یہ معاملہ اس لئے کیا کہ اس وقت اپنی حاجت و ضرورت سے زائد غلہ یہودیوں کے علاوہ اور کسی کے پاس نہیں تھا۔ -3 اور ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا اس حال میں وصال ہوا ہے کہ آپ ﷺ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جَو کے بدلے گروی رکھی ہوئی تھی ( بخاری)
Top