مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 314
عَنْ اَبِیْ اَےُّوْبَ الْاَنْصَارِیِّص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اَتَےْتُمُ الْغَآئِطَ فَلاَ تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَۃَ وَلَا تَسْتَدْبِرُوْھَا وَلٰٰکِنْ شَرِّقُوْا اَوْ غَرِّبُوْا (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ) قَالَ الشَّےْخُ الْاِمَامُ مُحْیْ السُّنَّۃِ رَحِمَہُ اللّٰہُ ھٰذَا الْحَدِےْثُ فِی الصَّحْرَآءِ وَاَمَّا فِی الْبُنْےَانِ فَلَا بَاْسَ لِمَا رُوِیَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا قَالَ ارْتَقَےْتُ فَوْقَ بَےْتِ حَفْصَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَالِبَعْضِ حَاجَتِیْ فَرَاَےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَقْضِیْ حَاجَتَہُ مُسْتَدْبِرَا لْقِبْلَۃِ مُسْتَقْبِلَ الشَّامِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
پاخانہ کے آداب کا بیان
حضرت ابوایوب انصاری (اسم گرامی خالد ابن زید ہے اور کنیت ابوایوب ہے ٥٠ ھ یا ٥١ ھ میں ان کا انتقال ہے)۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم بیت الخلاء جاؤ تو قبلہ کی طرف منہ نہ کرو بلکہ مشرق اور مغرب کی طرف منہ اور پشت رکھو (صحیح البخاری و صحیح مسلم) حضرت امام محی السنۃ فرماتے ہیں کہ یہ جنگل کا حکم ہے ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنی ضرورت سے حفصہ کے مکان پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو (بیت الخلاء میں) قضاء حاجت کرتے دیکھا، آپ ﷺ قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
حدیث میں جہت اور سمت کا جو تعین فرمایا گیا ہے وہ اہل مدینہ کے اعتبار سے یا ان لوگوں کے لئے جو اسی سمت رہتے ہیں اس لئے کہ مدینہ میں قبلہ جنوب کی طرف پڑتا ہے اس لئے ان کو تو مشرق اور مغرب ہی کی طرف منہ اور پشت کرنی ہوگی، ہمارے ملک والوں کے لئے یا ان ممالک کے لئے جو اس سمت میں واقع ہیں ان کو مشرق اور مغرب کی طرف منہ اور پشت نہ کرنی چاہئے کیونکہ یہاں کے اعتبار سے قبلہ مغرب کی طرف پڑتا ہے۔ بہر حال۔ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے، ہمارے امام صاحب تو فرماتے ہیں کہ پیشاب، پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف نہ منہ کرنا چاہئے خواہ جنگل ہو یا آبادی و گھر ہو، اگر کرے گا تو مرتکب حرام ہوگا۔ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک قبلہ کی طرف منہ اور پشت کرنا جنگل میں تو حرام ہے آبادی و گھر میں حرام نہیں ہے۔ حضرت امام اعظم (رح) کی دلیل پہلی حدیث ہے جو ابوایوب انصاری ؓ سے منقول ہے اس حدیث میں قبلہ کی طرف منہ اور پشت نہ کرنے کا حکم مطلقاً ہے اس میں جنگل و آبادی و گھر کی کوئی قید نہیں ہے لہٰذا جو حکم جنگل کا ہوگا وہی حکم آبادی کا بھی ہوگا یہ حدیث نہ صرف یہ کہ حضرت ابوایوب ہی سے منقول ہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک بڑی تعداد اس کی روایت کرتی ہے۔ پھر امام صاحب کی دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبلہ کی طرف منہ اور پشت نہ کرنے کا حکم قبلہ کی تعظیم و احترام کے پیش نظر دیا ہے لہٰذا جس طرح جنگل میں تعظیم قبلہ ملحوظ رہے گا اسی طرح آبادی و گھر میں بھی احترام قبلہ کا لحاظ ضروری ہوگا جیسا کہ قبلہ کی طرف تھوکنا اور پاؤں پھیلانا ہر جگہ منع ہے۔ امام محی السنۃ نے حضرت عبداللہ بن عمر فاروق ؓ کی جو حدیث روایت کی ہے وہ حضرت امام شافعی (رح) کی دلیل ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پشت کرنا گھر میں جائز ہے۔ ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اول تو یہ ہوسکتا ہے کہ عبداللہ بن عمر فاروق ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو گھر میں بیت الخلاء کے اندر قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے اس حکم کے نفاذ سے پہلے دیکھا ہوگا، لہٰذا یہ حکم پہلے کے لئے ناسخ ہے، پھر دوسرے یہ کہ رسول اللہ ﷺ قبلہ کی طرف منہ کئے ہوئے نہیں بیٹھے ہوں گے بلکہ آپ ﷺ اس انداز سے گھوم کر بیٹھے ہوں گے کہ حقیقت میں قبلہ کی طرف پشت نہ ہوگی اور ظاہر ہے کہ موقع کے نزاکت کے پیش نظر عبداللہ بن عمر فاروق ؓ نے وہاں کھڑے ہو کر بغور تو آپ ﷺ کو دیکھا نہیں ہوگا، بلکہ جب یہ چھت پر چڑھے تو ان کی نظر اچانک ادھر بیت الخلاء کی طرف اٹھ گئی ہوگی اس لئے اس میں سرسری طور پر عبداللہ بن عمر ؓ آپ ﷺ کی نشست کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکے اس حدیث کے بارے میں جب یہ احتمال بھی نکل سکتا ہے تو پھر حضرت شافعی (رح) کو اپنے مسلک کی دلیل کے لئے اس کا سہارا لینا کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتا۔
Top