مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 327
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَ کَانَتْ یَدُ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ الْیُمْنَی لِطُھُوْرِہٖ وَطَعَامِہٖ وَ کَانَتْ یَدُہُ الْیُسْرٰی لِخَلَائِہٖ وَمَا کَانَ مِنْ اَذًی۔(رواہ ابوداؤد)
پاخانہ کے آداب کا بیان
اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کا داہنا دست مبارک وضو کرنے اور کھانے کے لئے تھا اور بایاں ہاتھ استنجاء اور ہر مکروہ کام کے استعمال کے لئے تھا۔ (ابوداؤد)

تشریح
آپ ﷺ دائیں ہاتھ سے وضو کرتے تھے اور اس سے کھانا بھی کھاتے نیز جتنے اچھے کام ہیں سب دائیں ہاتھ سے انجام دیتے تھے مثلاً یہ، صدقہ و خیرات کرنا یا دوسری چیزیں لینا دینا وغیرہ وغیرہ اور بائیں ہاتھ کو استنجاء کرنے یا ایسی چیزوں کی انجام دہی میں استعمال فرماتے جو مکروہ ہوتیں یعنی ایسی چیزیں جو طبعاً مکروہ ہوں، جیسے ناک سنکنی یا ایسے ہی دوسری چیزیں جنہیں نفس مکروہ سمجھتا ہو۔ اس حدیث سے ظاہری طور پر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ وضو وغیرہ کے وقت آپ ﷺ ناک میں پانی دائیں ہاتھ سے دیتے ہوں گے اور ناک بائیں ہاتھ سے صاف کرتے ہوں گے، مگر۔ افسوس کہ جس طرح آج کے دور میں عقل و دین سے بیگانہ لوگوں نے دوسری اسلامی چیزوں کو ترک کردیا اور دینی آداب کو فیشن پرستی کے بھینٹ چڑھا دیا ہے اسی طرح اس معاملہ میں بھی اکثر لوگ بالکل برعکس عمل اختیار کئے ہوئے ہیں مثلاً آج کل یہ بہت بڑا مرض عام طور پر لوگوں میں سرایت کرچکا ہے کہ کتاب تو لوگ بائیں ہاتھ میں رکھتے ہیں اور اپنے جوتے دائیں ہاتھ میں اٹھاتے ہیں اب اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ یا تو ایسے لوگ آداب شریعت سے قطعاً ناواقف ہوتے ہیں یا پھر نفس کی گمراہی میں پھنس کر غفلت اختیار کئے ہوئے ہیں۔
Top