مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 350
وَعَنْ مَرْوَانَ الْاَصْفَرِ قَالَ رَاَیْتُ بْنَ عُمَرَ اَنَاخَ رَاحِلَتَہُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ ثُمَّ جَلَسَ یَبُوْلُ اِلَیْھَا فَقُلْتُ یَا اَبَا عَبْدِالرَّحْمٰنِ اَلَیْسَ قَدْنُھِیَ عَنْ ھٰذَا قَالَ بَلْ اِنَّمَا نُھِیَ عَنْ ذٰلِکَ فِی الْفَضَآءِ فَاِذَا کَانَ بَیْنَکَ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ شَیْی ءٌ یَسْتُرُکَ فَلَا بَأْسَ۔ (رواہ ابوداؤد)
پاخانہ کے آداب کا بیان
اور حضرت مروان اصفر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے (ایک مرتبہ) حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنا اونٹ قبلہ کی طرف بیٹھایا پھر خود بیٹھے اور اونٹ کی طرف پیشاب کیا میں نے (یہ دیکھ کر) عرض کیا ابوعبدالرحمن! (یہ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کی کنیت ہے) کیا اس طرح قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے سے منع فرمایا گیا انہوں نے فرمایا ہاں جنگل میں اس سے منع فرمایا گیا ہے لیکن جب تمہارے اور قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (ابوداؤد)

تشریح
اس مسئلہ میں حضرت عبداللہ بن عمر فاروق ؓ کا یہ قول دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کے اس فعل سے دلیل پکڑتے تھے جسے اس باب کی پہلی حدیث میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو قبلہ کی طرف پشت کر کے پاخانہ کرتے ہو دیکھا تھا اور یہ اسی موقع پر بتایا جا چکا ہے کہ اس فعل میں کئی احتمالات پیدا ہوتے ہیں لہٰذا فعل محتمل کو دلیل کے طور پر پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔ اور پھر اس کی بھی وضاحت کی جا چکی ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ کی اکثر احادیث سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ پیشاب و پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہ کرنے کا حکم عام ہے اس میں جنگل کی تخصیص نہیں ہے اسی لئے امام اعظم (رح) کا یہی مسلک ہے کہ اس حکم میں جنگل و آبادی سب برابر ہیں قبلہ کی طرف منہ و پشت کرنا ہر جگہ ممنوع ہے خواہ جنگل کا کھلا میدان ہو یا آبادی میں گھرے ہوئے مکانات۔
Top