مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 379
وَعَنْ سَعَیْدِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ لَا وُضُوْءَ لِمَنْ لَمْ یَذْکُرِسْمَ اﷲِ عَلَیْہِ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَرَوَاہُ اَحْمَدُ وَاَبُوْدَؤدَ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَادَّارِمِیُّ عَنْ اَبِی سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ عَنْ اَبِیْہِ وَزَادَ فِیْ اَوَّلِہٖ لَا صَلَاۃَ لِمَ لَّاوُضُوْءَ لَہُ)
وضو کی سنتوں کا بیان
اور حضرت سعید بن زید ؓ ( اسم گرامی سعید بن زید اور کنیت ابوالاعور ہے آپ قریشی عدوی ہیں اور آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں آپ کا انتقال ٥٠ ھ یا ٥١ ھ میں بعمر ٧٠ سال بمقام عتیق ہوا)۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس آدمی نے (وضو کے وقت) اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا اس کا وضو نہیں ہوا۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) اور مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد نے اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور دارمی نے ابوسعید خدری ؓ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا ہے، نیز ان لوگوں نے اپنی روایت کے شروع میں یہ الفاظ زائد ذکر کئے کہ اس آدمی کی نماز نہیں ہوتی جس نے وضو نہیں کیا )

تشریح
اس حدیث سے وضو کے ابتداء میں بسم اللہ کہنے کی فضیلت و اہمیت کا اظہار ہو رہا ہے، حدیث کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے ابتداء وضو میں اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا یعنی بسم اللہ نہیں کہی تو اس کا وضو درجہ تکمیل کو نہ پہنچا جس کی بنا پر اسے ثواب نہیں ملا۔ ویسے اس مسئلہ کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت امام احمد بن حنبل (رح) تعلایٰ علیہ کے نزدیک ابتداء وضو میں بسم اللہ کہنا واجب ہے، مگر جمہور علماء کے کرام کے نزدیک سنت یا مستحب ہے۔ ابتداء وضو میں علماء سلف سے یہ الفاظ منقول ہیں سُبْحَانَ ا الْعَظِیْم وَبِحَمْدِہ بعض علماء نے کہا ہے کہ اَعُوْذُ بِا پڑھنے کے بعد بِسْمِ ا الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھنا افضل ہے اور مشہور یہ الفاظ ہیں۔ بِسْمِ ا وَالحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی دِیْنِ الْاِسْلَامِ۔ روایت کے آخر میں ایک لفظی غلطی ہے، جو ہوسکتا ہے کہ کاتب وغیرہ سے سہو ہو یعنی آخر میں یہ الفاظ ذکر کئے گئے ہیں والدارمی عن ابی سعید الخدری عن ابیہ غلط ہے بلکہ صحیح ابی سعید الخدری عن النبی ﷺ یعنی درامی نے اس حدیث کو حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے اور ابی سعید نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔
Top