مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 394
وَعَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبِ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّ لِلْوُضُوْءِ شَیْطَانًا یُقَالَ لَہ، اَلْوَلَھَانُ فَاتَّقُوْا وَسْوَاسَ الْمَآءِ رَوَاہُ التِّرْمَذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ وَلَیْسَ اِسْنَادُہ، بِالْقَوِیِّ عِنْدَ اَھْلِ الْحَدِیْثِ لِاَنَّا لَا نَعْلَمُ اَحَدًا اَسْنَدَہ، غَیْرَ خَارِجَۃَ وَھُوَلَیْسَ بِالْقَوِیِّ عِنْدَاَصْحَابِنَا۔
وضو کی سنتوں کا بیان
اور حضرت ابی بن کعب ؓ سرکار دو عالم ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا وضو کا ایک شیطان ہے جسے ولہان کہا جاتا ہے لہٰذا پانی کے وسوسہ سے بچو (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) اور امام ترمذی (رح) نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور محدثین کے نزدیک اس کی سند قوی نہیں ہے اس لئے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ خارجہ (ایک عالم) کے علاوہ کسی نے اس کی سند بیان کی ہو اور وہ (خارجہ) ہمارے محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔

تشریح
ولھان کے معنی ہیں عقل کا جاتے رہنا اور متحیر ہونا۔ یہ نام اس شیطان کا اس لئے ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر کے انہیں متحیّر اور بےعقل کردیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وضو کرنے والا اس چکر میں پھنس کر وہم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ وہ جب وضو کرتا ہے تو یہ وسوسے اس کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ نامعلوم فلاں عضو پر ٹھیک سے پانی پہنچا ہے یا نہیں؟ فلاں عضو کو ایک مرتبہ دھویا ہے یا دو مرتبہ؟ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پانی کے وسوسہ سے بچو یعنی وضو کے وقت پانی استعمال کرنے میں جب اس قسم کے وسوسے اور وہم پیدا ہوں تو انہیں قائم نہ رہنے دو بلکہ انہیں اپنے دل سے باہر نکال پھینکو تاکہ حدود سنت سے تجاوز نہ کرسکو، کیونکہ اس شیطان کا مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ وضو کرنے والا ان وسوسوں اور اوہام میں مبتلاء ہو کر اعضاء وضو کو تین مرتبہ سے بھی زیادہ دھو ڈالے یا ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کرے جس کی بنا پر وہ مسنون طریقہ سے ہٹ جائے۔
Top