مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 441
وَعَنْ شُعْبَۃَ قَالَ اِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ کَانَ اِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَۃِ یُفْرِغُ بِیَدِہٖ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرٰی سَبْعَ مَرَّاتٍ ثُمَّ یَغْسِلُ فَرْجَہُ فَنَسِیَ مَرَّۃً کَمْ اَفْرَغَ فَسَأَلَنِیَ فَقُلْتُ لَا اَدْرِیْ فَقَالَ لَا اُمَّ لَکَ وَمَا یَمْنَعُکَ اَنْ تَدْرِیَ ثُمَّ یَتَوضَّأُ وُضُوْءَ ہ، لِلصَّلٰوۃِ ثُمَّ یُفِیْضُ عَلٰی جِلْدِہٖ الْمَآءَ ثُمَّ یَقُوْلُ ھٰکَذَا کَانَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَطَھَّرُ۔ (رواہ ابوداؤد)
غسل کا بیان
حضرت شعبہ راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس ناپاکی کا غسل فرماتے تو (پہلے) اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر سات مرتبہ پانی ڈالتے پھر اپنی شرم گاہ دھوتے۔ ایک مرتبہ بھول گئے کہ پانی کتنی مرتبہ ڈالا ہے؟ چناچہ انہوں نے مجھ سے پوچھا میں نے عرض کیا مجھے یاد نہیں انہوں نے فرمایا تمہاری ماں مرے تمہیں یاد رکھنے سے کس نے روک دیا تھا؟ پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کر کے اپنے سارے بدن پر پانی بہا لیا اور کہنے لگے کہ سرکار دو عالم ﷺ بھی اس طرح پاک ہوا کرتے تھے۔ (ابوداؤد)

تشریح
غسل جنابت کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے متعلق ستر دھونے سے پہلے ہاتھوں کو دھونے کے بارے میں اس سے پہلے جو احادیث گزری ہیں یا تو وہ مطلق ہیں یعنی ان میں یہ تعداد ذکر نہیں کی گئی ہے کہ آپ ﷺ کتنی مرتبہ ہاتھ دھوتے تھے یا جن میں تعداد ذکر کی گئی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک دو مرتبہ دھوئے ہیں یا تین مرتبہ، چناچہ باب الغسل کی پہلی فصل میں خود حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کی ایک روایت (نمبر ٥) گزری ہے جس میں یہ تو منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک دھوئے ان کی تعداد زکر نہیں کی گئی ہے کہ کتنی مرتبہ دھوئے؟ لیکن یہاں حضرت شعبہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کا یہ عمل نقل فرما رہے ہیں کہ وہ غسل جنابت کے وقت سات مرتبہ پانی ڈال کر ہاتھ دھوتے تھے۔ لہٰذا اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کا یہ عمل کسی خاص صورت میں ہوگا یعنی آپ کو کوئی ایسی صورت پیش آئی ہوگئی۔ جس کی بنا پر بہت زیادہ طہارت و پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے ساتھ مرتبہ دھونا ضرور سمجھا ہوگا۔ یا پھر اس کی تاویل یہ ہوگی کہ سات مرتبہ دھونے کے حکم کے منسوخ ہونے کی اطلاع حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کو نہیں ہوئی ہوگی اس لئے انہوں نے اسی پہلے حکم کے مطابق سات مرتبہ دھویا ہوگا۔ یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ شاگرد کو اپنے شیخ و استاد کے سامنے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ رہنا چاہئے تاکہ شیخ کے ہر ہر قول اور ہر ہر عمل کو ذہن نشین کر کسے۔ نیز شیخ و استاد کو یہ حق ہے کہ وہ شاگرد کی غفلت اور لاپرواہی پر تنبیہ کرے۔
Top