مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 445
عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا ےَبُوْلَنَّ اَحَدُکُمْ فِی الْمَۤاءِ الدَّآئِمِ الَّذِیْ لَا ےَجْرِیْ ثُمَّ ےَغْتَسِلُ فِےْہِ (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَفِیْ رِوَاےَۃِ لِّمُسْلِمٍ قَالَ لَا ےَغْتَسِلُ اَحَدُکُمْ فِیْ الْمَآءِ الدَّائِمِ وَھُوَ جُنُبٌ قَالُوْا کَےْفَ ےَفْعَلُ ےَا اَبَا ھُرَےْرَۃَ قَالَ ےَتَنَاوَلُہ، تَنَاوُلًا۔
پانی کے احکام کا بیان
حضرت ابوہریرۃ ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی اس ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہنے والا نہ ہو پیشاب نہ کرے کہ پھر اسی میں غسل کرنے لگے (یعنی کسی دانشمند سے یہ بعید ہے کہ وہ پانی میں پیشاب کرلے پھر اسی پانی سے غسل کرلے) (صحیح البخاری و صحیح مسلم) صحیح مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی ناپاکی کی حالت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے (تاکہ پانی ناپاک نہ ہوجائے) لوگوں نے کہا ابوہریرہ ؓ پھر کس طرح نہانا چاہئے؟ انہوں نے فرمایا اس میں سے تھوڑا تھوڑا پانی (چلو سے) لے کر پانی سے باہر نہانا چاہئے۔

تشریح
یہاں جس پانی میں پیشاب کرنے اور پھر اس میں نہانے سے روکا جا رہا ہے اس سے ماء قلیل یعنی تھوڑا پانی مراد ہے کیونکہ ماء کثیر یعنی زیادہ پانی ماء جاری یعنی بہنے والے پانی کا حکم رکھتا ہے جو پیشاب وغیرہ سے ناپاک نہیں ہوتا اور پھر اس میں نہانا بھی جائز ہے۔ بعض علماء کرام نے کہا کہ ماء کثیر یعنی زیادہ پانی میں بھی پیشاب کرنا ممنوع ہے اگرچہ وہ پانی پیشاب وغیرہ سے نجس نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر اس میں کوئی آدمی پیشاب کرے گا تو اس کے دیکھا دیکھی دوسرے بھی اس میں پیشاب کرنے لگیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عمومی طور پر سب ہی لوگ اس میں پیشاب کرنے کی عادت میں مبتلا ہوجائیں گے جس کی وجہ سے پانی رفتہ رفتہ متخیر (تبدیل) ہوجائے گا یعنی جب اس میں زیادتی اور کثرت سے پیشاب کیا جائے گا تو پانی کا رنگ مزہ اور بو تینوں چیزیں بدل جائیں گی اور پانی اصل حیثیت کھو کر ناپاک ہوجائے گا۔ لہٰذا اب اس حدیث میں مذکورہ حکم کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ پہلی شکل یعنی پانی کم ہونے کی صورت میں تو یہ نہی حرمت کے لئے ہے کیونکہ کم پانی میں پیشاب کرنے سے پانی ناپاک ہوجاتا ہے۔ دوسری شکل یعنی پانی زیادہ ہونے کی صورت میں کراہت کے لئے ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ اصطلاح شریعت میں کم پانی اور زیادہ پانی کی مقدار اور اس کی تحدید کیا ہے؟ تو اس سلسلے میں انشاء اللہ تعالیٰ اگلے صفحات میں پوری وضاحت کی جائے گی۔ اسے بھی سمجھ لیجئے کہ حدیث میں پانی کے ساتھ جاری یعنی بہنے والے کی قید کیوں لگائی گئی ہے؟ اس قید کی وجہ یہ ہے کہ اگر پانی جاری یعنی بہنے والا ہو تو خواہ کم ہو یا زیادہ ہو اس میں نجاست مثلاً پیشاب وغیرہ پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ نیز علماء کرام نے لکھا ہے کہ یہ تمام تفصیلات دن کے لئے ہیں، رات میں جنابت کے خوف کی وجہ سے مطلقاً اس میں قضائے حاجت مکروہ اور ممنوع ہے کیونکہ جنات رات کو وہیں رہتے ہیں جہاں پانی ہوتا ہے چناچہ اکثر و بیشتر ندی و نالے اور تالاب جوہڑ اور نہر وغیرہ رات کو جنات کا مسکن ہوتی ہیں۔ حدیث کے آخری حصے سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی جنبی پانی میں ہاتھ نکالنے کے لئے ڈالے تو پانی مستعمل یعنی ناقابل استعمال نہیں ہوگا اور اگر وہ پانی میں ہاتھ اس لئے ڈالے تاکہ اپنے ہاتھوں کو ناپاکی دور کرنے کے لئے اس میں دھوئے تو اس شکل میں اپنی مستعمل یعنی ناقابل استعمال ہوجائے گا۔
Top