Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (1499 - 1573)
Select Hadith
1499
1500
1501
1502
1503
1504
1505
1506
1507
1508
1509
1510
1511
1512
1513
1514
1515
1516
1517
1518
1519
1520
1521
1522
1523
1524
1525
1526
1527
1528
1529
1530
1531
1532
1533
1534
1535
1536
1537
1538
1539
1540
1541
1542
1543
1544
1545
1546
1547
1548
1549
1550
1551
1552
1553
1554
1555
1556
1557
1558
1559
1560
1561
1562
1563
1564
1565
1566
1567
1568
1569
1570
1571
1572
1573
مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 2586
حدود کا بیان
حد کے معنی حدود حد کی جمع ہے اور حد کے اصل معنی ہیں ممنوع نیز اس چیز کو بھی حد کہا جاتا ہے جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہو اصطلاح شریعت میں حدود ان سزاؤں کو کہتے ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں اور ساتھ ہی متعین ہیں جیسے چوری، زنا، شراب نوشی کی سزائیں۔ لفظ حد کے اصل معنی ممنوع یا حائل اگر پیش نظر ہوں تو واضح ہوگا کہ شرعی سزاؤں کو حدود اسی لئے کہتے ہیں کہ یہ سزائیں بندوں کو گناہوں میں مبتلا ہونے سے روکتی ہیں اور ان کا خوف انسان اور جرم کے درمیان حائل رہتا ہے۔ حدود اللہ محارم کے معنی میں بھی منقول ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (تلک حدود اللہ فلا تقربوھا) اسی طرح مقادیر شرعی یعنی تین طلاقوں کا مقرر ہونا وغیرہ کے معنی میں بھی منقول ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا) لیکن واضح رہے کہ ان دونوں میں بھی حدود کا اطلاق اصل معنی ممنوع ہی کے اعتبار سے ہے کہ محارم کی قربت (یعنی ان سے نکاح وخلوت) بھی ممنوع ہے اور مقادیر شرعی سے تجاوز کرنا بھی ممنوع ہے۔ سزا کی تفصیل شرعی قانون نے جرم و سزاء کا جو ضابطہ مقرر کیا ہے اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں سزائیں تین طرح کی ہیں۔ (١) وہ سزائیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے متعین کردیا ہے مگر ان کے اجزاء کو خود بندوں پر چھوڑ دیا ہے ان میں کسی خارجی طاقت جیسے حاکم یا حکومت کو دخل انداز ہونے کا حکم نہیں ہے، شریعت نے اس طرح کی سزا کا نام کفارہ رکھا ہے جیسے قسم کی خلاف ورزی یا رمضان میں بلا عذر شرعی روزہ توڑ دینے کا نام کفارہ! (٢) وہ سزائیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں اور ساتھ ہی متعین ہیں، ان سزاؤں کو جاری کرنے کا اختیار تو حاکم یا حکومت کو ہے مگر ان میں قانون سازی کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے، اس طرح کی سزا کو شریعت میں حد کہتے ہیں جیسے چوری، زنا اور شراب نوشی کی سزائیں۔ (٣) وہ سزائیں جنہیں کتاب وسنت نے متعین تو نہیں کیا ہے مگر جن برے کاموں کی یہ سزائیں ہیں ان کو جرائم کی فہرست میں داخل کیا ہے اور سزا کے تعین کا مسئلہ حاکم یا حکومت کے سپرد کردیا ہے کہ وہ موقع ومحل اور ضرورت کے مطابق سزا خود متعین کریں گویا اس قسم کی سزاؤں میں حکومت کو قانون سازی کا حق بھی حاصل ہے مگر اس دائرہ کے اندر رہ کر جو شریعت نے متعین کر رکھا ہے اس طرح کی سزا شریعت میں تعزیر کہلاتی ہے۔ حد اور تعزیر میں فرق حد اور تعزیر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حد تو شریعت میں عقوبت ہے جو اللہ کا حق قرار دی گئی ہے اسی لئے اس کو حق اللہ کہا جاتا ہے بایں وجہ کہ اس میں کوئی بندہ تصرف نہیں کرسکتا اور تعزیر کو حق اللہ کہا جاتا ہے بایں وجہ کہ بندہ اس میں تصرف کرسکتا ہے یعنی اگر وہ کوئی مصلحت دیکھے تو قابل تعزیر مجرم کو معاف بھی کرسکتا ہے اور موقع ومحل اور جرم کی نوعیت کے اعتبار سے سزا میں کمی زیادتی اور تغیر وتبدل بھی کرسکتا ہے، حاصل یہ کہ حد تو اللہ کی طرف سے متعین ہے جس میں کوئی تصرف ممکن نہیں اور تعزیر قاضی یا حکومت کے سپرد ہے اسی عدم تقدیر و تحقیق کی بنا پر تعزیر کو حد نہیں کہا جاتا۔ چونکہ قصاص بھی بندہ کا حق ہے کہ وہ اپنے اختیار سے مجرم کو معاف کرسکتا ہے اس لئے اس کو بھی حد نہیں کہا جاتا۔
Top